Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

محمد علی کی تعیناتی، حکومت آئی پی پیز سے مذاکرات میں بجلی کی لاگت کم کر سکے گی؟

توانائی امور کے ماہر علی خضر کے مطابق محمد علی آئی پی پیز کے مسئلے کو بخوبی سمجھتے ہیں۔ (فوٹو: اے پی پی)
پاکستان میں گذشتہ کئی روز سے نجی بجلی گھروں یعنی انڈیپنڈنٹ پاور پروڈیوسرز (آئی پی پیز) کے ساتھ معاہدوں پر نظر ثانی پر بات ہو رہی ہے۔ اس حوالے سے وفاقی حکومت نے جہاں آئی پی پیز کے معاملات کی چھان بین کے لیے ایک ٹاسک فورس تشکیل دی ہے تو وہیں سابق نگراں وزیر اور ماضی میں آئی پی پیز کے مسئلے پر کام کرنے والے محمد علی کو وزیراعظم کا معان خصوصی برائے توانائی بھی مقرر کیا گیا ہے۔
توانائی کے شعبے کا وسیع تجربہ رکھنے والے محمد علی ماضی کے اندر آئی پی پیز کے حوالے سے ایک جامع رپورٹ تیار کر چُکے ہیں جس کی روشنی میں کچھ نجی بجلی گھروں سے بات چیت بھی کی گئی تھی۔
عالمی بینک کے اشتراک سے آئی پی پیز پر بنائی جانے والی رپورٹ میں نجی بجلی گھروں کے توانائی شعبے پر پڑنے والے منفی اثرات کی نشاہدہی اور ان کے سدباب کے لیے تجاویز بھی دی گئی تھیں۔
حکومت کی جانب سے محمد علی کی بطور معاون خصوصی تعیناتی اور آئی پی پیز کے حوالے سے ٹاسک فورس کی تشکیل کے بعد یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا حکومت نجی بجلی گھروں کے ساتھ مذاکرات کے ذریعے بجلی کی لاگت کو کم کر سکے گی؟
تاہم اس حوالے سے توانائی کے شعبے کے ماہرین زیادہ پُرامید نظر نہیں آتے۔ ان کے خیال میں اس وقت کیپسٹی پیمنٹس کی مد میں زیادہ ادائیگیاں سنہ 2013 کے بعد لگنے والے بجلی گھروں کو جا رہی ہیں اور حکومت 20 سال پرانے آئی پی پیز کے ساتھ بات چیت کرنے میں دلچسپی رکھتی ہے۔

ٹاسک فورس کے مقاصد

حکومت نے بجلی کی پیداواری لاگت کو کم کرنے کے لیے انڈیپنڈنٹ پاور پروڈیوسرز کے معاملات کی چھان بین کا فیصلہ کیا ہے۔ اس حوالے وزیراعظم شہباز شریف نے ایک آٹھ رکنی ٹاسک فورس قائم کرنے کی منظوری دی ہے جس کے چیئرمین وفاقی وزیر توانائی اویس لغاری اور وزیراعظم کے معاون خصوصی محمد علی ہوں گے۔
نوٹیفکیشن کے مطابق یہ ٹاسک فورس پیداواری صلاحیت کی ادائیگیاں کم کرنے اور بعض بجلی گھر بند کرنے کے لیے سفارشات مرتب کرے گی۔ جبکہ آئی پی پیز کے قیام اور پیداواری لاگت سے متعلق اقدامات سمیت آئی پی پیز کے حکومت کے ساتھ معاہدوں کی شرائط کی پاسداری کا بھی جائزہ لے گی۔

ماہرین کے خیال میں اس وقت کیپسٹی پیمنٹس کی مد میں زیادہ ادائیگیاں 2013 کے بعد لگنے والے بجلی گھروں کو جا رہی ہیں۔ (فائل فوٹو: ایکس)

خصوصی ٹاسک فورس نجی بجلی گھروں کے قیام میں غیر قانونی اقدام، طریقہ کار میں نقائص اور مالی خامیوں کی نشاندہی کرنے کے ساتھ پاور سیکٹر کو مالی طور پر مضبوط بنانے کے لیے سفارشات دے گی۔
اس کے علاوہ پیداوار میں اضافے، صنعتوں میں بجلی کا استعمال بڑھانے کے لیے سفارشات اور گردشی قرضوں کے خاتمے کے لیے اقدامات تجویز کرے گی۔
نوٹیفکیشن کے مطابق ٹاسک فورس ایک ماہ کے اندر اپنی سفارشات وزیراعظم کو پیش کرنے کی پابند ہے۔

’اب ان بجلی گھروں کے ساتھ بات کرنے کا کوئی زیادہ فائدہ نہیں‘

تاہم توانائی امور کے ماہر علی خضر کے خیال میں حکومت کو پرانے آئی پی پیز پر زیادہ توجہ دینے کی بجائے سنہ 2013 کے بعد لگائے جانے والے آئی پی پیز کے ساتھ بات کرنی چاہیے۔
انہوں نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ سی پیک اور نیو کلیئر انرجی کے بجلی گھروں کو بھی کیپسٹی چارجز مل رہے ہیں۔ اگر حکومت ان بجلی گھروں کے ساتھ مذاکرات کے لیے کوئی راستہ نکال لیتی ہے تو اس کا کسی حد تک بجلی کی پیداواری لاگت پر فرق آئے گا۔
علی خضر کے مطابق بظاہر حکومت کی ترجیح پرانے بجلی گھروں کے ساتھ بات چیت کرنا ہے جن کو 20، 20 سال ہو گئے ہیں اور وہ اپنی مدت پوری کرنے کے قریب ہیں۔ ایسے آئی پی پیز کے ساتھ پہلے بھی مذاکرات ہوئے ہیں اور اب دوبارہ ان سے مثبت بات چیت کے نتیجے میں بھی بجلی کی پیداوری لاگت میں کوئی بڑا فرق نہیں آئے گا۔
انہوں نے نگراں وزیر توانائی محمد علی کی بطور معاون خصوصی تعیناتی کے حوالے سے کہا کہ ’محمد علی آئی پی پیز کے مسئلے کو بخوبی سمجھتے ہیں۔ انہوں نے ماضی کے اندر آئی پی پیز پر ایک جامع رپورٹ بھی تیار کی تھی۔ جس کے تحت 2002 اور 1994 کی پالیسی پر لگائے گئے آئی پی پیز کے ساتھ بات چیت کے ذریعے کچھ چیزوں پر نظرثانی کی گئی تھی۔ تاہم اب ان بجلی گھروں کے ساتھ بات کرنے کا کوئی زیادہ فائدہ نہیں۔‘

توانائی امور کے ماہر ارشد ایچ عباسی کے مطابق اس وقت آئی پی پیز کو لے کر حکومت کے پاس کوئی آپشنز موجود نہیں ہیں۔ (فائل فوٹو: سوشل میڈیا)

ان کا کہنا تھا کہ ’موجودہ اقدامات کو دیکھتے ہوئے معلوم ہوتا ہے کہ بظاہر حکومت صرف خبروں میں ہی آنا چاہتی ہے۔ محمد علی کی واپسی اور حکومتی ٹاسک فورس میں دیگر ممبران کی تعیناتی ظاہر کرتی ہے کہ اس معاملے میں مقتدر حلقوں کی بھی خاصی دلچسپی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ حکومت اس مسئلے کو کس سمت لے کر چلتی ہے۔‘
علی خضر نے بجلی کی قیمتوں میں اضافے کی ایک بڑی وجہ توانائی شعبے کے اندرونی مسائل کو بھی قرار دیا ہے۔
’ٹرانسمیشن کی صلاحیت نہ ہونے اور میرٹ آرڈر کے دیگر مسائل مہنگی بجلی کا سبب بن رہے ہیں لیکن حکومت ان مسائل کے سدباب اور نئے آئی پی پیز کے ساتھ بات چیت کرنے کے لیے سنجیدہ دکھائی نہیں دے رہی۔‘

’یہ بند کمروں کی سیاست ہے‘

توانائی امور کے ماہر ارشد ایچ عباسی کے مطابق آئی پی پیز کو ملک میں توانائی کے شعبے کی بہتری کے لیے لگایا گیا تھا۔ اس وقت آئی پی پیز سے ملک میں بجلی کی کمی پوری کرنے کا بھی منصوبہ تھا اور ساتھ میں ملک میں کاروبار کو بھی پروان چڑھانا تھا، تاہم وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مختلف حکومتوں نے آئی پی پیز کے حوالے سے کوئی منصوبہ بندی نہیں کی جس کے نتائج آج سامنے آ رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اس وقت آئی پی پیز کو لے کر حکومت کے پاس کوئی آپشنز موجود نہیں ہیں۔ یہ بند کمروں کی سیاست ہے۔ ہمیں بدقسمتی سے ان ہی آئی پی پیز کے ساتھ آگے بڑھنا ہو گا۔

شیئر: