مہنگی بجلی فروخت کرنے والے آئی پی پیز کیسے کام کرتی ہیں؟
مہنگی بجلی فروخت کرنے والے آئی پی پیز کیسے کام کرتی ہیں؟
منگل 23 جولائی 2024 5:28
رائے شاہنواز - اردو نیوز، لاہور
پاکستان میں پہلی مرتبہ بے نظیر بھٹو کے دور حکومت میں آئی پی پیز نے کام شروع کیا۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)
آج کل پاکستان کے مقامی میڈیا کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا پر ایک نئی بحث جاری ہے۔ اس بحث کی شروعات اس وقت ہوئیں جب حالیہ نگراں حکومت میں وفاقی وزیر کے عہدے پر رہنے والے گوہر اعجاز نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ایکس پر اپنے ہینڈل سے کچھ تفصیلات شیئر کیں۔
گوہر اعجاز جو ایک کاروباری شخصیت ہیں اور طویل عرصہ آل پاکستان ٹیکسٹائل ایسوسی ایشن کے صدر بھی رہے ہیں، نے اپنے ٹویٹس میں پاکستان میں بجلی کی پیدوار کے لیے کام کرنے والی نجی کمپنیوں کو آڑے ہاتھوں لیا۔ انڈیپینڈنٹ پاور پرڈیوسرز یا آئی پی پیز وہ نجی کمپنیاں ہیں جو بجلی کے کارخانے لگاتی ہیں اور حکومتوں کو بجلی فروخت کرتی ہیں۔
سابق نگراں وفاقی وزیر نے اپنے ایکس اکاؤنٹ پر کچھ دستاویزات شیئر کرتے ہوئے کہا کہ ’حکومت نے آئی پی پیز کے ساتھ جو معاہدے کر رکھے ہیں اس کی وجہ سے وہ ان نجی کارخانوں سے 750 روپے فی یونٹ بجلی خرید رہی ہے۔ کوئلے پر چلنے والے نجلی کارخانوں سے حکومت یہی یونٹ 200 روپے میں خرید رہی ہے۔‘
پاکستان میں آئی پی پیز کی شروعات 90 کی دہائی میں اس وقت ہوئی جب وزیراعظم بے نظیر بھٹو نے بجلی کی طلب پوری کرنے کے لیے نجی کمپنیوں کو سرمایہ کاری کی دعوت دی۔ یوں پاکستان میں پہلی مرتبہ آئی پی پیز نے کام شروع کیا۔
بجلی کے ریگولیٹر ادارے نیپرا کی ویب سائٹ پر پاکستان میں اس وقت کام کرنے والے بجلی کے کارخانوں کی تفصیلات موجود ہیں جو سنہ 1994 سے کام کر رہے ہیں یا اس کے بعد کی حکومتوں میں لگائے گئے۔
ایسے نجی کارخانوں کی کُل تعداد 200 سے تجاوز کر چکی ہے جو بجلی پیدا کر کے حکومت کو فروخت کر رہے ہیں۔
آئی پی پیز کا گھن چکر ہے کیا؟
ملتان کی بجلی کی تقسیم کار کمپنی میپکو کے بورڈ آف گورنرز میں ایک عرصہ تک رہنے والے اور توانائی کے شعبے پر گہری نظر رکھنے والے خرم مشتاق نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ یہ بات سمجھنے کے لیے پاکستان کے توانائی کے شعبے پر نگاہ ڈالنی ناگزیر ہے۔
’اس وقت ملک میں 41 ہزار میگا واٹ بجلی پیدا کرنے کے وسائل ہیں جبکہ ضرورت اس وقت 30 سے 31 ہزار میگا واٹ بجلی کی ہے۔ لیکن بجلی کی تقسیم کے ڈسٹری بیوشن نظام میں صرف 22 ہزار میگا واٹ بجلی لے جانے کی سکت ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ دوسرے لفظوں میں اگر لوڈ شیڈنگ بھی ہو رہی ہے تو اس کا مطلب ہر گز یہ نہیں کہ ملک میں بجلی نہیں ہے۔ بجلی تو ضرورت سے کہیں زیادہ ہے۔ لیکن ہمارا نظام اپ گریڈ نہیں ہے۔
’اب یہ جو بجلی بن رہی ہے اس میں زیادہ تر پروڈکشن آئی پی پیز کر رہے ہیں۔ اور ان کے معاہدے میں یہ لکھا ہے کہ وہ اتنی بڑی سرمایہ کاری اس لیے کر رہے ہیں کہ حکومت ان سے بجلی خریدے گی۔ حکومت اگر ان سے بجلی نہیں بھی لیتی تو ان کی پیدوار کی کیپیسٹی کی 80 فیصد ادائیگی حکومت کو ہر صورت کرنا ہو گی۔‘
خرم مشتاق کا کہنا تھا کہ ’اگر ایک آئی پی پی 100 میگا واٹ بجلی بنا رہا ہے اور حکومت اس سے نہیں خرید رہی تو حکومت کو پھر بھی 80 میگاواٹ کی لاگت کے پیسے ادا کرنا ہوں گے۔‘
اس سوال پر کہ کیا منافع بخش کاروبار ہونے کی وجہ سے اتنے آئی پی پیز کام کر رہے ہیں؟ انہوں نے کہا کہ ’ایسا بھی نہیں ہے۔ جن کمپنیوں نے سرمایہ کاری کی ہے انہوں نے پیسہ کمرشل بینکوں سے اٹھایا ہوا ہے۔ جس میں انہوں نے بینک کو سود اور اصل رقم بھی واپس کرنا ہوتی ہے۔ تو یہ ایک محفوظ کاروباری ماڈل ضرور ہے اس لیے اس میں بڑے بڑے سرمایہ کار ہی آتے ہیں۔ اب تو چین نے بھی بہت سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔‘
نیپرا کی ویب سائٹ پر درج آئی پی پیز میں کچھ ایسے بھی ہیں جو صرف دو میگا واٹ بجلی پیدا کر رہے ہیں اور بعض ایسے بھی ہیں جو سینکڑوں میگا واٹ بجلی بنا رہے ہیں۔
اس مسئلے کا حل کیا ہے؟
80 فیصد کیپسٹی بلنگ کے اعتبار سے سادہ حساب کے مطابق تو حکومت آئی پی پیز کو35 ہزار میگاواٹ سے زائد کی ادائیگی کرتی ہے، جبکہ 22 ہزار میگا واٹ بجلی نجی اور صنعتی شعبے کو فروخت ہو پا رہی ہے۔ یوں 13 ہزار میگاواٹ کی اضافی ادائیگی کو پورا کرنے کے لیے آئے روز فی یونٹ قیمت بڑھائی جاتی ہے۔
اس مسئلے کے حوالے سے گوہر اعجاز نے ایکس پر پوسٹ میں کہا کہ اس کا ایک ہی حل ہے کہ حکومت ان آئی پی پیز کا فرانزک آڈٹ کروائے۔ اور کیپیسٹی چارجز کی مد میں جو تباہ کن ادائیگیاں اور سرکلر ڈیبٹ ہے اس سے جان چھڑوائی جائے۔ توانائی کے شعبے میں شدید قسم کی اصلاحات کی ضرورت ہے۔ ان معاہدوں پر نظر ثانی کی جائے۔‘
خیال رہے کہ سابق وزیراعظم عمران خان نے بھی اپنے دور حکومت میں آئی پی پیز کے ساتھ معاہدوں پر نظر ثانی کی تھی تاہم اس کے خاطر خواہ نتائج سامنے نہیں آئے تھے۔
مختلف تاجر تنظیمیں بھی اب آئی پی پیز کے خلاف بیانات دے رہی ہیں۔ تاہم حکومت کے ہاتھ بین الاقوامی قوانین کی وجہ سے بندھے ہوئے ہیں۔