سولر پینلز کا بڑھتا استعمال، بجلی بنانے والے سرکاری اداروں کو تشویش کیوں؟
سولر پینلز کا بڑھتا استعمال، بجلی بنانے والے سرکاری اداروں کو تشویش کیوں؟
اتوار 4 اگست 2024 14:27
صالح سفیر عباسی، اسلام آباد
جون میں 15 ارب یونٹس کے تخمینے میں سے 13 ارب 7 کروڑ یونٹس استعمال ہوئے (فوٹو: اے ایف پی)
پاکستان میں ایک طرف صوبائی حکومتیں عوام میں سولر پینل کی مفت تقسیم کے اعلانات کر رہی ہیں تو دوسری جانب بجلی کے شعبے سے جڑے سرکاری ادارے سولر پینل کے بڑھتے استعمال کے سبب قومی گرڈ سے بجلی کے کم استعمال پر پریشان ہیں۔
اس حوالے سے نیپرا میں ہونے والی ایک حالیہ سماعت کے دوران گفتگو کرتے ہوئے نیپرا کے ممبر سندھ رفیق احمد شیخ نے صوبائی حکومتوں کو سینٹرل پاور پرچیزنگ کمپنی (سی پی پی اے ) کے ساتھ تشبیہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ صوبائی حکومتیں جس طرح سولر پلیٹس تقیسم کر رہی ہیں اس سے بظاہر لگتا ہے کہ وہ سی پی پی اے کا مقابلہ کر رہی ہیں۔
سولر پینل کے استعمال میں اضافے اور سرکاری بجلی کے کم استعال کے معاملے پر نیپرا میں ہونے والی سماعتوں کے دوران تبصرے ہوتے رہے ہیں۔ جن میں سی پی پے اے سمیت متعلقہ ادرے بجلی کے کم استعمال کا معاملہ نیپرا کے سامنے رکھ چکے ہیں۔
15 ارب یونٹس کے تخمینے میں سے 13 ارب 7 کروڑ یونٹس استعمال ہوئے: سی پی پی اے
ملک میں بجلی کے کم استعال کے معاملے پر سرکاری دستاویزات میں یہ بتایا گیا ہے کہ رواں سال جون میں سی پی پی اے کی جانب سے 15 ارب یونٹس کے بجلی کے استعال کا تخمینہ لگایا گیا تھا، تاہم اس کے برعکس جون کے مہینے کے دوران 13 ارب 7 کروڑ یونٹس کی بجلی استعمال ہو سکی ہے۔
نیپرا کی سماعت کے دوران سی پی پی نے اپنی بریفنگ میں بتایا تھا کہ بجلی مہنگی ہونے کے سبب اس کے استعال میں کمی دیکھنے کو مل رہی ہے۔ جون کے شدید گرم مہینے کے دوران بھی یہی رجحان دیکھا گیا ہے۔ تاہم اس حوالے سے سی پی پی اے، وزارت توانائی یا نیپرا کی جانب سے کوئی متبادل حکمت عملی نہیں بتائی گئی۔
صوبائی حکومتوں کی جانب سے سولر پینل کی تقسیم، ’سی پی پی اے کا مقابلہ‘
نیپرا کے ممبر سندھ رفیق احمد شیخ نے کہا تھا کہ ’سی پی پی اے کی جانب سے یہ بتایا جا رہا ہے کہ وہ بجلی کی طلب میں اضافہ کریں گے، تاہم بجلی کی طلب میں نظر نہیں آ رہی۔ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ اس وقت کی وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی کیا پالیسز ہیں۔ صوبہ پنجاب اور سندھ سولر پینل تقسیم کر رہے ہیں کچھ ہ عرصہ بعد خیبر پختونخوا بھی یہ سلسہ شروع کر دے گا۔‘
اگر سولر پینلز کی بیٹریز کی سٹوریج کا مسئلہ حل ہو گیا تو ڈسکوز کا قصہ ہی ختم ہو جائے گا
نییپرا کی حالیہ سماعت کے دوران نیپرا ممبران نے ملک میں بڑھتی سولرئرازیشن پر بات کرتے ہوئے مزید کہا کہ اس وقت سولر پینل سے انرجی سٹور کرنے والی بیٹریز کی زیادہ صلاحیت نہیں ہے۔ اگر ان بیٹریز کی سٹوریج کا مسئلہ حل ہو گیا تو پھر بجلی تقسیم کار کمپنیوں (ڈسکوز) ہی بند ہو جائیں گی۔
نیپرا ممبر سندھ رفیق شیخ کا کہنا تھا کہ ’اگر ڈسکوز بند ہوتی ہیں تو مجھے خوشی ہو گی۔‘
دوسری جانب وزارت توانائی کے حکام نے رابطہ کرنے پر اُردو نیوز کو بتایا کہ اگرچہ بجلی کے نرخ بڑھنے سے عوام میں شمسی توانائی کے استعمال کا رجحان ضرور بڑھا ہے جس سے سرکاری بجلی کے استعمال میں بھی کمی آئی ہے تاہم حکومت قابل تجدید توانائی کے فروغ میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں کرے گی۔
اس بارے میں مزید جاننے کے لیے جب ماہر توانائی اور سابق چیئرمین این ٹی ڈی سی ڈاکٹر فیاض چوہدری سے رابطہ کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں وفاقی و صوبائی حکومتوں کو بجلی کے شعبوں کے محکموں ساتھ مل کر پالیسیز بنانے کی ضروت ہے جس سے ملک کے بجلی کے مسائل بھی ہوں اور عوام کے پاس سستی بجلی کی دستیابی بھی ممکن ہو۔
اُردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر فیاض چوہدری نے کہا کہ شمسی توانائی کے بڑھتے استعمال سے پریشان ہونے کے بجائے اس کو بجلی کے شعبے کی بہتری کے لیے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔ تاہم اس حوالے سے تکنیکی بنیادوں کا جائزہ لیتے ہوئے بجلی کی پیداوار اور اس کے استعمال طریقہ کار طہ ہونا چاہیے۔ انہوں نے صوبائی حکومتوں کو توانائی شعبے سے متعلق لیے گئے فیصلے متعلقہ محکموں کی مشاورت سے کرنے پر زور دیا ہے۔
نیپرا کے سابق چیئرمین اور ماہر تونائی گلفراز احمد کے خیال میں حکومت کو اپنی نااہلی چھپانے کے لیے سولر پینل کے استعال کو بجلی شعبے کا مسئلہ نہیں بنانا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ انڈیا اور امریکہ میں شمسی توانائی استعال کرنے والے صارفین کو خصوصی سبسڈی فراہم دی جاتی ہے۔ پاکستان میں بھی سولر استعمال کرنے والے صارفین کے حقوق کا تحفظ ہونا چاہیے۔
اُنہوں نے اُردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ حکومت نے ضرورت سے زیادہ بجلی پیدا کرنے کے لیے پلانٹس لگائے جن کے استعمال کے لیے کوئی حکمت عملی نہیں بنائی گئی۔ اگر بجلی بحران سے نجات حاصل کرنی ہے تو ایسے غلط فیصلوں کا سدباب ضروری ہے۔
گلفراز احمد سمجھتے ہیں کہ اس وقت دنیا میں سولر پینل کا استعمال بڑھ رہا ہے۔ اگر پاکستان میں توانائی کے اس ذریعے پر کوئی قدغن لگائی جاتی ہے تو ملک میں بجلی پیدا کرنے والے نئے ذرائع بند ہو جائیں گے۔