ذاکر بلوچ: غریب پرور ڈی سی پنجگور جن کے قتل پر ’پورا بلوچستان افسردہ‘ ہے
ذاکر بلوچ: غریب پرور ڈی سی پنجگور جن کے قتل پر ’پورا بلوچستان افسردہ‘ ہے
منگل 13 اگست 2024 19:08
زین الدین احمد -اردو نیوز، کوئٹہ
ڈپٹی کمشنر پنجگور ذاکر علی بلوچ کی نماز جنازہ منگل کی صبح کوئٹہ میں ادا کر دی گئی۔ (فوٹو: ڈی جی پی آر)
صوبہ بلوچستان کے ضلع مستونگ میں ڈپٹی کمشنر کے قتل کے واقعے کے بعد محکمہ انسداد دہشت گردی (سی ٹی ڈی) اور دیگر سکیورٹی فورسز نے آپریشن کرتے ہوئے دو شدت پسندوں کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔
سی ٹی ڈی حکام کے مطابق ’مستونگ کے علاقے کھڈکوچہ اور اطراف کے علاقوں میں سی ٹی ڈی، پولیس، لیویز اور ایف سی سمیت دیگر اداروں کی جانب سے فوری آپریشن شروع کیا گیا جس کے دوران فائرنگ کے تبادلے میں دو دہشت گردوں کو ہلاک کر دیا گیا۔‘
ادھر مقتول ڈپٹی کمشنر پنجگور ذاکر علی بلوچ کی نماز جنازہ منگل کی صبح کوئٹہ میں ادا کر دی گئی۔ نماز جنازہ میں گورنر بلوچستان شیخ جعفر خان مندوخیل، وزیراعلیٰ بلوچستان میر سرفراز بگٹی، کور کمانڈر بلوچستان لیفٹیننٹ جنرل راحت نسیم احمد خان، صوبائی وزرا اور اعلٰی سول و فوجی حکام نے شرکت کی۔ اس موقع پر سلامی بھی پیش کی گئی۔
سرکاری اعلامیے کے مطابق ذاکر علی کے جسدِ خاکی کو پورے اعزاز کے ساتھ تدفین کے لیے آبائی علاقے روانہ کر دیا گیا۔
ذاکر علی بلوچ پیر کی رات کوئٹہ سے تقریباً 65 کلومیٹر دورمستونگ کے علاقے کھڈ کوچہ میں کنڈ عمرانی کے مقام پر اس وقت نامعلوم افراد کی گولیوں کا نشانہ بنے جب وہ ڈسٹرکٹ کونسل پنجگور کے چیئرمین اور نیشنل پارٹی کے رہنما عبدالمالک صالح بلوچ کے ہمراہ کوئٹہ سے پنجگور جا رہے تھے۔
لیویز ایس ایچ او اویس خان کے مطابق ’درجن سے زائد مسلح افراد قریبی پہاڑوں سے اتر کر کوئٹہ کراچی آر سی ڈی شاہراہ پر ناکہ لگا کر گاڑیوں کی چیکنگ کر رہے تھے، اس دوران ڈپٹی کمشنر اور ڈسٹرکٹ چیئرمین کی گاڑی وہاں سے گزری۔ نہ رکنے پر مسلح افراد نے فائرنگ کی۔‘
ان کا کہنا تھا کہ فائرنگ کے نتیجے میں ڈی سی سمیت دو افراد جان سے گئے جبکہ ڈسٹرکٹ کونسل کے چیئرمین سمیت چار افراد زخمی ہوئے۔
وزیراعلیٰ بلوچستان سرفراز بگٹی نے ذاکر بلوچ کے قتل کی ذمہ داری کالعدم بلوچستان لبریشن آرمی (بی ایل اے) پر عائد کی ہے تاہم بی ایل اے نے اپنے ایک بیان میں اس واقعے سے لاتعلقی کا اظہار کیا اور کہا ہے کہ ذاکر بلوچ کبھی بھی بی ایل اے کے کسی ہٹ لسٹ پر نہیں رہے۔ کسی مسلح تنظیم نے اب تک اس واقعے کی ذمہ داری قبول نہیں کی۔
غریب پرور ڈپٹی کمشنر
ذاکر علی بلوچ کا تعلق بلوچستان کے مکران ڈویژن کے ضلع کیچ (تربت) کے علاقے سنگانی سر سے تھا۔ وہ بلوچستان سول سروس (بی سی ایس) کے گریڈ 18 کے افسر تھے۔ وہ اپریل 2024 میں مکران ڈویژن کے ضلع پنجگور کے ڈپٹی کمشنر تعینات ہوئے تھے۔
ذاکر علی بلوچ سنہ 2016 میں بلوچستان پبلک سروس سے صوبائی سول سروس (پی سی ایس) کا امتحان پاس کر کے اسسٹنٹ کمشنر بنے تھے۔ انہوں نے حب اور واشک سمیت صوبے کے مختلف اضلاع میں اسسٹنٹ کمشنر اور گوادر میں ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر کی حیثیت سے کام کیا۔ پنجگور سے قبل وہ قلعہ عبداللہ میں ڈپٹی کمشنر کےعہدے پر تعینات تھے۔
قلعہ عبداللہ میں ضمنی انتخاب کے دوران وہ پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کی تنقید کی زد میں رہے جو انہیں دھاندلی روکنے میں ناکامی کا ذمہ دار قرار دیتی رہی۔
اہلخانہ کے مطابق ذاکر شادی شدہ اور دو بیٹیوں کے باپ تھے۔ ان کا تعلق ایک متوسط گھرانے سے تھا۔ ذاکر علی کے والد مسقط کی فوج سے بطور میجر ریٹائرڈ ہوئے ہیں۔
ذاکر بلوچ کے چچا علی محمد نے اردو نیوز کو ٹیلیفون پر بتایا کہ ’ذاکر نہ صرف اپنے اہلخانہ بلکہ پورے علاقے کے لوگوں کا خیال رکھتے تھے۔ وہ سب کے ہمدرد تھے۔ انہوں نے اس مقام تک پہنچنے کے لیے بڑی محنت کی۔ ان کی موت نے ہم سب کو توڑ کر رکھ دیا ہے۔‘
ذاکر علی بلوچ نے میٹرک تک تعلیم تربت سے حاصل کی۔ کوئٹہ کے گورنمنٹ ڈگری کالج سے ایف ایس سی کرنے کے بعد 2013 میں لاہور کی یونیورسٹی آف انجینیئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی (یو ای ٹی) سے پٹرولیم انجینیئرنگ کی۔ انہوں نے چند ماہ ایک معروف غیرملکی کمپنی میں بھی کام کیا۔
ذاکر بلوچ کے قریبی دوست بہروز حکیم نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’بہت ملنسار اور اپنی زمین سے جڑے ہوئے انسان تھے انہیں اپنے لوگوں سے محبت تھی اور ان کی خدمت کرنا چاہتے تھے اسی لیے انہوں نے سول سروسز جوائن کرنے کا فیصلہ کیا۔‘
’وہ ذہین، قابل اور پرعزم شخص تھے۔ اسسٹنٹ کمشنر بننے سے پہلے انہوں نے کسٹم انسپکٹر کی بھرتی کے امتحان میں پاکستان بھر میں پہلی پوزیشن حاصل کی۔ تقریباً چھ ماہ کام کرنے کے بعد انہوں نے کسٹمز کی ملازمت چھوڑ دی کیونکہ وہ مقابلے کا امتحان کی تیاری کرنا چاہتے تھے۔‘
انہوں نے بتایا کہ سنہ 2015 میں ہم دونوں نے پہلی بار سی ایس ایس کا امتحان دیا لیکن کامیاب نہیں ہوئے۔ ذاکر نے ہمت نہ ہاری اور اگلے سال بلوچستان میں صوبائی سول سروس (پی سی ایس) کا امتحان دے کر اسسٹنٹ کمشنر لگ گئے۔
بہروز حکیم کے مطابق ’اسسٹنٹ کمشنر بننے کے باوجود ذاکر بلوچ کو سی ایس ایس کرنے کا جنون تھا۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ انہوں نے سنہ 2020 میں سی ایس ایس کے امتحان کی تیاری ایسے کی جیسے وہ بے روزگار تھے حالانکہ ان دنوں وہ بسیمہ ضلع واشک میں اسسٹنٹ کمشنر کے عہدے پر تعینات تھے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’ذاکر بلوچ صرف اپنے ہی نہیں دوسروں کے خواب بھی پورا ہوتے دیکھنا چاہتے تھے، اس لیے وہ چاہتے تھے کہ ان کے دوست اور آس پاس کے سب لوگ آگے بڑھیں۔ وہ دوسروں کے بارے میں فکر مند رہتے تھے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ لاہور کے ہاسٹل میں ایک ساتھ رہ کر ہم نے مقابلے کے امتحانات کی تیاری کی۔ ہم پانچ چھ دوستوں کا گروہ تھا سب ذاکر کو اپنا لیڈر کہتے تھے کیونکہ وہ ہر وقت نہ صرف رہنمائی کرتا تھا بلکہ ہم پر بھائیوں جیسی سختی کرتا تھا کہ ہم پڑھیں، محنت کریں اور امتحانات کی تیاری کریں۔ یہی وجہ ہے کہ آج اس کے یہ سارے دوست اچھے عہدوں پر ہیں۔ کوئی ڈپٹی کمشنر تو کوئی کسٹمز اور ایکسائز میں افسر ہیں۔
’ہم سب دوست اپنی کامیابی کا سہرا ذاکر بلوچ کو دیتے ہیں۔ وہ ہمیشہ ہماری حوصلہ افزائی کرتے تھے۔ ان کی موت نے ہمیں بہت دکھ دیا ہے ہم پر جیسے قیامت آ گئی ہے۔‘
بہروز حکیم کے مطابق ذاکر بلوچ بہت غریب اور بندہ پرور ڈپٹی کمشنر تھے۔ ان میں وہ افسروں والا غرور اور انا نہیں تھی۔ ان کے دفتر کے دروازے ہر کسی کے لیے کھلے ہوتے تھے۔ ان کی موجودگی میں ڈپٹی کمشنر کا دفتر ایسا نہیں ہوتا تھا کہ کوئی داخل نہیں ہو سکتا۔
انہوں نے کہا کہ اسسٹنٹ کمشنر بننے کے بعد بھی ذاکر بلوچ اپنے خاندان اور اپنے علاقے کے غریب لوگوں کو نہیں بھولے۔ وہ کوئٹہ، لاہور اور اسلام آباد میں اپنے علاقے اور بلوچستان کے درجنوں ایسے غریب طلبا کی مدد کر رہے تھے جنہیں تعلیمی اور ہاسٹل فیس بھرنے میں مشکلات کا سامنا تھا۔ وہ چاہتے تھے کہ کوئی بے تعلیم نہ رہے۔
بہروز حکیم نے مزید کہا کہ ذاکر بلوچ کی موت پر پورا بلوچستان افسردہ ہے، فیس بک اور واٹس ایپ گروپس سمیت ہر جگہ لوگ ان کی تصاویر شیئر کر کے ان کی تعریف کر رہے ہیں، اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وہ کس طرح کے افسر، دوست اور انسان تھے۔
ذاکر بلوچ کی بیچ میٹ افسر اور ڈپٹی کمشنر آواران عائشہ زہری نے اردو نیوز کو بتایا کہ آواران اور پنجگور کے اضلاع نزدیک ہیں، ہمارے اضلاع کے سرحدی مسائل سمیت دیگر معاملات پر اکثر بات ہوتی رہتی تھی۔ دونوں اضلاع میں امن وامان کے مسائل ہیں۔ ذاکر بلوچ نے کچھ دن پہلے ایک الرٹ بھیجا کہ آپ احتیاط کریں۔
’وہ مجھے محتاط رہنے کا کہہ رہے تھے لیکن بدقسمتی سے وہ خود المناک موت کا شکار ہو گئے۔ وہ بالکل بھائیوں کی طرح تھے ہم نے ایک اچھے بیچ میٹ ہی نہیں ایک بھائی اور ایک اچھے افسر کو کھویا ہے۔‘
ذاکر بلوچ کے حوالے سے محکمہ تعلیم کے افسر منیر نودیزئی نے کہا کہ ہمیں گوادر میں ایک ساتھ کام کرنے کا موقع ملا۔ ان کا طرز عام افسران جیسا نہیں تھا وہ ان سے کافی مختلف تھے۔ انہیں اپنے عہدے کا کوئی گھمنڈ نہیں تھا بلکہ ان کی خواہش تھی کہ وہ اپنے اس عہدے کی بدولت کچھ کر دکھائیں۔ انہیں تعلیم کے فروغ میں بہت دلچسپی تھی۔ انہوں نے گوادر میں داخلہ مہم میں بڑھ چڑھ کر کام کیا۔
منیر نودیزئی کے مطابق ذاکر بلوچ کی موت سے چند روز قبل کی ایک ویڈیو بھی وائرل ہے جس میں وہ بلوچ یکجہتی کمیٹی کے مظاہرین سے گفتگو کر رہے ہیں۔ انہوں نے اس مشکل صورتحال میں اپنا کردار بہتر انداز میں ادا کیا۔ مظاہرین سے تحمل اور اچھے طریقے سے بات کی۔
سابق سیکریٹری خزانہ بلوچستان محفوظ علی خان نے اس بیچ کے افسران کو پشاور میں پڑھایا جس میں ذاکر بلوچ شامل تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’میں نے ذاکر کو نہایت شرمیلا نوجوان پایا۔ دکھ بہت چھوٹا لفظ ہے اس سفاکانہ واقعے نے اندر سے ہلا ڈالا۔
فیس بک پر اپنی ایک پوسٹ میں انہوں نے کہا کہ ’انسانی سفاکی ایک اور خوبصورت اور خوب سیرت جوان کھا گئی۔ کیا فائرنگ کرنے والے نے ایک لمحے کے لیے سوچا کہ وہ ایک شخص نہیں امید، شرافت اور انسانیت کا قتل کر رہا ہے؟‘
سابق بیورو کریٹ کا کہنا تھا کہ ذاکر بلوچ ایک نہایت اعلٰی شخصیت کا مالک تھا۔ اس کے اور اس سے جڑے بچوں کے، والدین کے کچھ خواب تھے، آپ کی نفرت یا چند پیسوں کی طمع نے یہ خواب اجاڑ دیے۔
ذاکر بلوچ کی ایک اور بیچ میٹ اسسٹنٹ کمشنر ندا کاظمی نے کہا کہ مجھے آج بھی وہ دن یاد ہے جب ذاکر علی بلوچ نے اپنی اہلیہ کے مقالے کو مکمل کرنے میں مدد کے لیے مجھ سے رابطہ کیا تھا۔ وہ کیمسٹری میں ڈگری حاصل کر رہی تھیں اور اس وقت حاملہ تھیں۔
’ذاکر باپ بننے پر بہت خوش تھا لیکن اب میرا دل دکھتا ہے جب میں سوچتی ہوں کہ اس کے معصوم ننھے بچوں کا کیا بنے گا وہ شفیق باپ کے بغیر کیسے جیئں گے اور ان کی بیوہ اس بار کو کیسے اکیلے اٹھائے گی؟‘
سابق سینیٹر و سابق ایم پی اے ثنا بلوچ نے ڈپٹی کمشنر پنجگور کی موت پر لکھا کہ ’ذاکر بلوچ کی ناگہانی کی موت نہ صرف ان کے جاننے والے، ان کے مداحوں بلکہ پورے بلوچستان کے لوگوں کا بڑا نقصان ہے۔ وہ ایک مخلص اور پرعزم پروفیشنل انسان تھے جنہوں نے اپنے لوگوں کی خدمت کی۔ ان کی ہمت اور بے لوثی کو وہ لوگ ہمیشہ یاد رکھیں گے جنہیں انہیں جاننے کا شرف حاصل ہے۔‘