Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

نادرا میں ’من پسند افراد کی بھرتیاں‘ اور ترقیاں، ایک سال میں خزانے کو کروڑوں کا نقصان

آڈٹ کے مطابق کسی بھی افسر کی ترقی کے لیے اس کی سالانہ کارکردگی رپورٹ اور خصوصی کارکردگی رپورٹ کا ہونا ضروری تھا (فوٹو: اے ایف پی)
نیشنل ڈیٹا بیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی نادرا میں ایک سال کے دوران افسران کو نوازنے کے لیے خلاف ضابطہ تقرریوں اور ترقیوں کے ذریعے قومی خزانے کو کروڑوں روپے کا نقصان پہنچایا گیا ہے۔
مثال کے طور پر مشکوک ایم بی اے کی ڈگری کی حامل ایک خاتون افسر کو ساڑھے تین لاکھ روپے تنخواہ پر بھرتی کیا گیا اور بعد ازاں انھیں اگلے گریڈ میں ترقی دے کر تنخواہ 16 لاکھ روپے تک پہنچا دی گئی۔
آڈیٹر جنرل آف پاکستان کی ایک آڈٹ رپورٹ کے مطابق نادرا قواعد کے مطابق اتھارٹی اسی ملازم کو اگلے اعلیٰ درجے یا عہدے پر ترقی دے سکتی ہے جو  اتھارٹی کی ترقی کی پالیسی اور معیار پر پورا اترتا ہو۔ اسی طرح خاص حالات میں اور تحریری طور پر وجوہات درج کرتے ہوئے کسی تکنیکی/پیشہ ورانہ عہدے پر فائز ملازم کو ترقی دی جا سکتی ہے یا اس کے موجودہ عہدے کی تنخواہ، الاؤنسز، فوائد وغیرہ میں اضافہ کیا جا سکتا ہے۔
نادرا کے آڈٹ کے دوران انکشاف ہوا ہے کہ ریما آفتاب کو نادرا ٹیکنالوجیز میں ڈپٹی چیف کمرشل آفیسر کے طور پر مقرر کیا گیا تھا۔ کچھ عرصے بعد خاتون افسر نے اگلے گریڈ میں ترقی کی درخواست کی اور چیئرمین نادرا نے انہیں اگلے سکیل میں ترقی دے دی۔ لیکن اس دوران کئی ایک بے ضابطگیاں کی گئیں۔
آڈٹ کے مطابق کسی بھی افسر کی ترقی کے لیے اس کی سالانہ کارکردگی رپورٹ اور خصوصی کارکردگی رپورٹ کا ہونا ضروری تھا۔ لیکن خاتون افسر کی فائل میں پانچ سال کی کارکردگی رپورٹ موجود نہ تھی جبکہ جس عہدے پر ترقی دی گئی وہ آسامی بھی خالی نہیں تھی۔
صرف یہی نہیں بلکہ خاتون افسر کو ’پرسٹن یونیورسٹی‘ اسلام آباد کی ایم بی اے ڈگری کی بنیاد پر تعینات کیا گیا تھا لیکن ایچ ای سی نے اس ڈگری کو اپنے 04 اکتوبر 2017 کے خط میں تسلیم نہیں کیا تھا۔
افسر کی تنخواہ کو غیرمعمولی حد تک بڑھا کر تین لاکھ 65 ہزار روپے سے پانچ لاکھ 65 ہزار روپے فی مہینہ کے علاوہ دیگر عمومی الاؤنسز پر مقرر کر دیا گیا جب کہ دیگر الائونسز الگ ہیں۔ آڈٹ کے وقت خاتون افسر تقریباً 16 لاکھ روپے ماہانہ تنخواہ وصول کر رہی تھیں۔ آڈٹ نے جولائی 2022 سے جون 2023 تک افسر کو تقریباً ایک کروڑ 92 لاکھ روپے کی ادائیگی کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے ان کی تعیناتی کے محرکات اور ذمہ داروں کا تعین کرنے کے لیے تحقیقات کرانے کی سفارش کی ہے۔
ایک اور آڈٹ اعتراض کے مطابق بریگیڈیئر (ریٹائرڈ) عبدالرحمان کو چیف ہیومن ریسورسز آفیسر کے طور پر بھرتی کیا گیا اور انہیں چار لاکھ 27 ہزار روپے ماہانہ تنخواہ دی گئی، حالانکہ ان کے پاس متعلقہ قابلیت نہیں تھی۔ انتظامیہ نے نادرا کی منظور شدہ پالیسیوں کو نظرانداز کرتے ہوئے اشتہار میں صرف 8 سال کا تجربہ درکار رکھا جبکہ اس عہدے کی تشکیل یا منظوری کا بھی کوئی ثبوت نہیں ملا۔ یہ بھی مشاہدہ کیا گیا کہ چیف ہیومن ریسورسز آفیسر اور ڈی جی ایچ آر کی پوسٹیں ایک ہی نوعیت اور گریڈ کی تھیں۔ صرف یہی نہیں بلکہ یہ  تقرری اتھارٹی (بورڈ آف ڈائریکٹرز) کے بجائے چیئرمین نے منظور کی۔
آڈٹ نے اس افسر کو 22 لاکھ روپے ماہانہ تنخواہ کی وصولی، جو ایک سال میں دو کروڑ 64 لاکھ روپے بنتی ہے، کو بے ضابطگی اور غیر منصفانہ قرار دیتے ہوئے غیر شفاف طریقے سے بھرتی کر کے ناجائز فائدہ پہنچانے کی تحقیقات کی سفارش کی ہے۔ لہذا افسران کی تقرری اور تقریباً تین کروڑ 21 لاکھ روپے (57 لاکھ روپے+دو کروڑ 64 لاکھ روپے) کی تنخواہ کی ادائیگی بے ضابطگی تھی۔

انتظامیہ نے سٹیزن فیسلیٹیشن سینٹرز میں کام کے لیے 180 ملازمین کے نام پر سات ماہ کی تنخواہیں جاری کیں (فوٹو: نادرا)

آڈٹ نے سفارش کی کہ افسران کی بھرتی کے معاملے کی غیرشفاف طریقے سے، بغیر کسی خالی آسامی کے، تنخواہ کے مقررہ حد سے زیادہ اضافے اور معاہدے کی شرائط سے تجاوز کی تحقیقات کی جائیں اور ذمہ دار کا تعین کیا جائے۔
اسی طرح آڈٹ کے دوران یہ بھی انکشاف ہوا ہے کہ نادرا کی جانب سے سابقہ فاٹا اضلاع میں ایک پروجیکٹ کی انتظامیہ نے سٹیزن فیسلیٹیشن سینٹرز میں کام کے لیے 180 ملازمین کے نام پر سات ماہ کی تنخواہیں جاری کیں۔ تنخواہ کی شیٹوں میں 180 ملازمین کو تین کروڑ 87 لاکھ روپے کی ادائیگی دکھائی گئی تھی۔ تاہم ان ملازمین کے عہدوں، تعیناتی کی جگہ، تقرری کی تاریخ، شناختی کارڈ نمبر اور اہلیت وغیرہ کی کوئی تفصیل تنخواہ کی شیٹوں کے ساتھ دستیاب نہیں تھی۔
ان ملازمین کی زیادہ تر تنخواہیں جولائی 2022 سے جنوری 2023 کے دوران ادا کی گئیں اور بعد میں انہیں ختم کر دیا گیا۔ سرکاری دستاویزات سے یہ بات ظاہر ہوئی ہے کہ سٹاف کی ضرورت پہلے ہی پوری ہو چکی تھی۔ اس لیے اس عملے کی بھرتی اور تنخواہوں کی ادائیگی کا کوئی جواز نہیں تھا۔ بظاہر ان ملازمین کی موجودگی ہی مشکوک ہے۔
آڈٹ نے سفارش کی کہ عملے کی بھرتی اور ان کی خدمات کے بعد معطلی کے معاملے کی مکمل حقائق اور اعداد و شمار کے ساتھ تحقیقات کی جائیں اور آڈٹ کو اس عملے کا تقرری نامہ اور ذاتی ریکارڈ فراہم کیا جائے۔
اسی طرح ایک اور افسر تنویر عباس کو مینجمنٹ ایسوسی ایٹ کے طور پر بھرتی کیا گیا، جبکہ نادرا کے منظور شدہ آرگانوگرام میں اس پوسٹ کی کوئی موجودگی نہیں تھی۔ انتظامیہ نے اخبار میں ایک خاص مقصد کے لیے اشتہار دیا۔ پوسٹ کے لیے درخواست دینے کے لیے گریجویٹ کی قابلیت کی ضرورت کو ایک وضاحتی نوٹس کے ذریعے تبدیل کیا گیا۔ زیادہ سے زیادہ عمر 55 سال مقرر کی گئی اور صرف تین سال کا مطلوبہ تجربہ بیان کیا گیا۔
صرف یہی نہیں بلکہ بھرتی کے فوراً بعد افسر کو ڈائریکٹر ای ایم ڈی کا چارج دیا گیا، حالانکہ انہیں اس پوسٹ کے لیے بھرتی نہیں کیا گیا تھا۔ ان کی تنخواہ دو لاکھ 68 ہزار روپے ماہانہ مقرر کی گئی تھی، لیکن چھ ماہ کے اندر اسے بڑھا کر تین لاکھ 84 ہزار روپے کر دیا گیا، جو معاہدے میں طے شدہ 10 فیصد سالانہ اضافے کی حد سے بھی تجاوز تھا۔
 اس طرح افسر کو ایک سال میں 57 لاکھ روپے کی ادائیگی بڑی بے ضابطگی ہے جس کی تحقیقات ہونا ناگزیر ہیں۔

آڈٹ کے مطابق تقرری کے بعد افسر کو نہ صرف تین مرتبہ ترقی دی گئی بلکہ ان کا گریڈ بھی تبدیل کر دیا گیا (فوٹو: پکسابے)

آڈٹ نے اپنے ایک اور اعتراض میں کہا ہے کہ سیف الرحمٰن عباسی کو نادرا کے ٹی 9 سکیل میں ترقی دی گئی۔ ریکارڈ سے یہ بات سامنے آئی کہ ان کی ترقی بغیر کسی خالی آسامی اور ترقی کے وقت منظور شدہ سٹاف کے تعین کے بغیر کی گئی تھی۔ افسر کو غیرمعمولی حد تک تنخواہ میں اضافہ دیا گیا اور انھیں تین لاکھ 77 ہزار روپے ماہانہ کے علاوہ دیگر عمومی الاؤنسز پر مقرر کیا گیا تھا جبکہ اس وقت افسر تقریباً 15 لاکھ روپے ماہانہ مجموعی تنخواہ وصول کر رہا تھا۔
آڈٹ کے مطابق تقرری کے بعد انھیں نہ صرف تین مرتبہ ترقی دی گئی بلکہ ان کا گریڈ بھی تبدیل کر دیا گیا۔
مذکورہ افسر کو O-7 گریڈ میں اسسٹنٹ منیجر کے طور پر مقرر کیا گیا تھا، تاہم انہیںO-7 گریڈ میں ڈپٹی مینیجر ایچ آر کے طور پر ترقی دی گئی۔ ایک کروڑ 80 لاکھ روپے کی تنخواہ کو بے ضابطگی قرار دیتے ہوئے کہا کہ انتظامیہ نے افسر کو غیرمعمولی فائدہ پہنچایا ہے، ان کی ترقی کے وقت خالی آسامیوں اور منظور شدہ سٹاف کا جائزہ نہیں لیا گیا۔ جس کی تحقیقات کروائی جائیں۔

شیئر: