Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بنگلہ دیش میں تباہ کن سیلاب سے 23 افراد ہلاک، 57 لاکھ سے زائد متاثر

سیلابی پانی میں پھنسے ہوئے افراد ان دور دراز علاقوں میں ہیں جہاں بند سڑکوں کی وجہ سے ریسکیو اور ریلیف آپریشن میں مشکلات کا سامنا ہے۔ (فوٹو: روئٹرز)
بنگلہ دیش میں مون سون بارشوں سے آنے والے تباہ کن سیلاب سے ہونے والی اموات 23 تک پہنچ گئی ہیں جبکہ 12 لاکھ سے زائد افراد ملک کے 11 اضلاع میں سیلابی پانی میں پھنسے ہوئے ہیں۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق جوں جوں سیلابی پانی اترتا جا رہا ہے، سیلاب اور بارشوں سے متاثر ہونے والے 57 لاکھ افراد میں سے اکثر کو خوراک، صاف پانی، ادویات اور خشک کپڑوں کی اشد ضرورت پڑ رہی ہے۔
سیلابی پانی میں پھنسے ہوئے افراد ان دور دراز علاقوں میں ہیں جہاں بند سڑکوں کی وجہ سے ریسکیو اور ریلیف آپریشن میں مشکلات کا سامنا ہے۔
بنگلہ دیش کے محکمہ موسمیات کا کہنا ہے اگر مون سون کی بارشیں جاری رہیں تو سیلابی صورتحال برقرار رہے گی کیونکہ دریاؤں میں سیلابی پانی بہت آہستہ سے اتر رہا ہے۔
حکام کا کہنا ہے کہ سیلاب سے متاثرہ اضلاع میں چار لاکھ 70 ہزار افراد پناہ گاہوں میں رہ رہے ہیں جبکہ 630 میڈیکل ٹیمیں، جن میں آرمی، نیوی، فضائیہ اور بارڈر گارڈ شامل ہیں، ریلیف آپریشن میں مصروف ہیں۔
وزارت زراعت کے حکام کا کہنا ہے کہ بہت بڑا زرعی رقبہ سیلابی پانی میں ڈوبا ہوا ہے اور اگر پانی زیادہ دیر تک کھیتوں میں رہا تو کھڑی فصلوں کو بہت زیادہ نقصان پہنچ سکتا ہے۔
2015 میں ورلڈ بینک کے ایک جائزے کے مطابق بنگلہ دیش میں تقریباً 35 لاکھ افراد سالانہ دریائی سیلابوں کی وجہ سے خطرے سے دوچار ہیں۔
سائنسدان ان تباہ کن واقعات کو ماحولیاتی تبدیلی سے جوڑتے ہیں۔
ایکشن ایڈ بنگلہ دیش کے ڈائریکٹر فرح کبیر کا کہنا ہے کہ بنگلہ دیش جیسے ممالک، جن کا کاربن کے اخراج میں نہ ہونے کے برابر حصہ ہے اور اس کے عوام نے قدرتی آفات کا بہادری سے سامنا کیا ہے، کو ماحولیاتی تبدیلی اور تسلسل سے آنے والے تباہی کو روکنے کے لیے فوری فنڈ کی ضرورت ہے۔
ایکش ایڈ کے مطابق سیلاب سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے اضلاع میں سے ایک نواکھلی کی رہائشی شکری بیگم کا گھر سیلابی ریلے میں بہہ گیا تو خوفزدہ شکری بیگم نے اپنی پوتے پوتیوں کے ساتھ پڑوسی کے گھر میں پناہ لی۔ تاہم وہ اس گھر میں بھی زیادہ دیر نہیں ٹھہر سکیں کیونکہ وہ گھر بھی سیلاب کی زد میں آیا۔  
شکری بیگم کے مطابق ان کا ایک معذور بیٹا تھا جس کو وہ اپنے ساتھ نہیں لا سکی۔ ’ہم چارپائیوں کو ایک دوسرے کے اوپر رکھ کر بیٹے کو اس پر چھوڑ آئے تاکہ وہ محفوظ رہ سکے۔ تاہم مجھے نہیں پتہ کہ ان کا کیا بنا۔‘
 

شیئر: