Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بنگلہ دیش: حکومت کا حسینہ واجد کے دور میں جبری گمشدگیوں کی تحقیقات کا حکم

ہیومن رائٹس واچ کے مطابق 2009 میں شیخ حسینہ کے اقتدار میں آنے کے بعد سے 600 سے زائد جبری گمشدگیاں ہوئیں۔ فوٹو: اے ایف پی
بنگلہ دیش کی عبوری حکومت نے سابق وزیراعظم شیخ حسینہ کے دورِ اقتدار میں ہونے والی جبری گمشدگیوں کے خلاف تحقیقات کا آغاز کر دیا ہے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق پیرا ملٹری فورس ’ریپڈ ایکشن بٹالین‘ (آر اے بی) کو بھی تفتیش میں شامل کیا جائے گا جس پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا الزام عائد کیا گیا ہے۔
امریکہ نے بھی ماورائے عدالت قتل اور جبری گمشدگیوں میں ملوث ہونے پر ریپڈ ایکشن بٹالین پر پابندیاں عائد کی تھیں۔
بین الاقوامی تنظیم ہیومن رائٹس واچ نے گزشتہ سال کہا تھا کہ سال 2009 میں شیخ حسینہ کے اقتدار میں آنے کے بعد سے سکیورٹی فورسز ’600 سے زائد جبری گمشدگیوں‘ میں ملوث تھیں جبکہ تقریباً ایک سو کے قریب افراد تاحال لاپتہ ہیں۔
حراست میں لیے گئے افراد میں سے اکثر کا تعلق شیخ حسینہ کی حریف جماعت بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی اور ملک کی سب سے بڑی اسلامی پارٹی ’جماعت اسلامی‘ سے ہے۔ 
شیخ حسینہ کی حکومت مسلسل ان الزامات کی تردید کرتی آئی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ لاپتہ افراد میں سے چند یورپ جانے کی کوشش میں بحیرہ روم میں ڈوب گئے تھے۔
خیال رہے کہ طلبا کی رہنمائی میں ہونے والے ملک گیر احتجاج کے نتیجے میں شیخ حسینہ کا 15 سالہ دور اقتدار 5 اگست کو اپنے اختتام کو پہنچا جب وہ ہیلی کاپٹر کے ذریعے انڈیا فرار ہو گئی تھیں۔
منگل کو رات گئے حکومت کی جانب سے جاری احکامات میں کہا گیا ہے کہ ہائی کورٹ کے ریٹائرڈ جج معین الاسلام چوہدری کی سربراہی میں پانچ رکنی کمیٹی سرحدی گارڈ بنگلہ دیش (بی جی بی) سمیت  پیراملٹی کے دیگر پولیس یونٹس کو بھی شامل تفتیش کرے گی۔

عبوری حکومت نے سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں جبری گمشدگیوں کی تحقیقات کا حکم دیا ہے۔ فوٹو: اے ایف پی

اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے دفتر کا کہنا ہے کہ آر اے بی اور بی جی بی  کی فورسز کا ’سنگین انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں بشمول جبری گمشدگیوں، تشدد اور بدسلوکی کے متعدد ریکارڈ موجود ہیں۔‘
بنگلہ دیش کی عبوری حکومت نے کمیٹی کو رپورٹ جمع کرانے کے لیے 45 دنوں کا وقت دیا ہے۔
اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے دفتر نے اپنی ابتدائی رپورٹ میں کہا ہے کہ شیخ حسینہ کی حکومت کے خاتمے سے چند ہفتے قبل کے واقعات میں 600 سے زائد افراد ہلاک ہوئے تاہم کمیشن کے مطابق تعداد کا ’ممکنہ طور پر کم اندازہ لگایا گیا ہے۔‘
شیخ حسینہ کے ملک سے فرار ہونے کے اگلے روز کئی خاندان ڈھاکہ میں ملٹری انٹیلی جنس کے دفتر کے باہر اکھٹی ہوئیں اور شدت سے اپنے اہل خانہ کا انتظار کرتی رہیں۔
تاہم صرف چند افراد کے رہا کیے جانے کی تصدیق کی گئی ہے۔

شیئر: