لاہور کے انڈر ورلڈ کی لڑائی میں پولیس کس طرف کھڑی ہے؟
لاہور کے انڈر ورلڈ کی لڑائی میں پولیس کس طرف کھڑی ہے؟
ہفتہ 31 اگست 2024 5:40
رائے شاہنواز - اردو نیوز، لاہور
پولیس نے امیر بالاج کے قریبی دوست احسن شاہ (دائیں) کو ان کے قتل میں معاونت کرنے کے الزام میں گرفتار کیا تھا۔ (فوٹو: ایکس)
پاکستان کے آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑے صوبہ پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں گذشتہ چند مہینوں سے متحرک انڈر گراؤنڈ گینگز ایک مرتبہ پھر خبروں میں ہیں۔ تین دہائیوں پر مبنی دو بڑے گروہوں کی لڑائی نے اس وقت نیا رخ اختیار کیا جب ٹیپو ٹرکاں والے کے بیٹے امیر بالاج کو شادی کی تقریب میں قتل کیا گیا جبکہ حملہ آور کو موقع پر ہی مار دیا۔
بعد ازاں پولیس نے امیر بالاج کے قریبی دوست احسن شاہ کو اس قتل میں معاونت کرنے کے الزام میں گرفتار کیا اور پھر گذشتہ ہفتے احسن شاہ بھی ایک مبینہ پولیس مقابلے میں مارے گئے۔
امیر بالاج کے قتل کی ایف آئی آر میں ان کے مخالفین طیفی بٹ اور گوگی بٹ کو نامزد کرتے ہوئے مقدمہ درج کیا گیا تھا۔ قانونی ماہرین کے مطابق احسن شاہ کے پولیس مقابلے میں مارے جانے اور اس سے پہلے موقع پر ہی شوٹر کو بھی ختم کیے جانے کے باعث یہ مقدمہ انتہائی کمزور ہو گیا ہے۔
اہم بات یہ ہے کہ سی آئی اے پولیس کے ایک سب انسپکٹر شکیل بٹ، امیر بالاج کے قتل کے موقع پر بھی وہاں موجود تھے۔ اور اب احسن شاہ کو بھی مزید تفتیش کے لیے گذشتہ ہفتے جیل سے نکلوانے والے شکیل بٹ ہی تھے۔ احسن شاہ کا خاندان اس حوالے سے تحقیقات کا مطالبہ کر رہا ہے۔
سوشل میڈیا پر اس مطالبے کے زور پکڑتے ہی جمعرات کو ایک آڈیو ٹیپ منظر عام پر آئی جس میں مبینہ طور پر احسن شاہ کو اپنی اہلیہ سے یہ کہتے سنا جا سکتا ہے کہ ’میں جلد باہر آ رہا ہوں اور جس نے مجھے گرفتار کیا تھا اس کے بارے میں ایک سرپرائز دوں گا۔‘
اس آڈیو ٹیپ کے تناظر میں سب انسپکٹر شکیل بٹ کی مدعیت میں احسن شاہ کی اہلیہ، طیفی بٹ اور گوگی بٹ کے خلاف قتل کی سازش کا ایک مقدمہ درج کیا گیا ہے۔ اس سے پہلے احسن شاہ کے مبینہ پولیس مقابلے کا پرچہ بھی انہی کے سگے بھائی کے خلاف درج ہوا تھا۔
پولیس کا کردار
لاہور کے انڈر ورلڈ کی اس گھمبیر لڑائی میں آئے دن حقائق بدلنے سے یہ تاثر زور پکڑتا جا رہا ہے کہ پولیس بھی ’وکٹ کے دونوں طرف‘ کھیل رہی ہے۔
اس سارے معاملے سے آگاہ ایک پولیس افسر نے اردو نیوز کو نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’کچھ چیزیں سمجھنے کے لیے صرف کامن سینس کی ضرورت ہوتی ہے۔ امیر بالاج کو جس طرح قتل کروایا گیا اس منصوبہ بندی میں یہ شامل تھا کہ حملہ آور فوری مارا جائے گا۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’مقدمے میں طیفی بٹ اور گوگی بٹ بھی نامزد ہیں لیکن امیر بالاج کے قتل کی رات تین بجے طیفی بٹ لاہور ایئرپورٹ سے لندن روانہ ہوا۔ قتل کے اس مقدمے میں اہم ترین گواہ احسن شاہ تھا کیونکہ ریکی اور دیگر ثبوت بتاتے ہیں کہ قتل کروانے میں اس کا مرکزی کردار تھا اور اس کو بالاج کے مخالفین نے استعمال کیا۔ اب احسن شاہ کے مرنے سے وہ قتل کا کیس تو تقریباً ختم ہو گیا۔‘
پولیس افسر کا کہنا تھا کہ ’تھوڑی باریکی سے دیکھا جائے تو آڈیو ٹیپ سے معلوم ہوتا ہے کہ احسن شاہ کو یہ جھانسہ دینا کہ اسے باہر نکلوا لیا جائے گا اور اس پولیس افسر سے متعلق بھی سرپرائز دیا جائے گا، یہ سب ایک منصوبہ بندی تھی تاکہ اس کے منہ سے یہ گفتگو ریکارڈ کروائی جائے۔ حقیقت میں ایک بہت بڑا کور اپ کیا گیا ہے، اب کچھ عرصے بعد طیفی بٹ واپس آ جائے گا کیونکہ اس کے خلاف کیس صاف ہو چکا ہے کوئی گواہ ہی نہیں رہا۔‘
اردو نیوز نے امیگریشن ریکارڈ سے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ بالاج کے قتل کی رات طیفی بٹ لاہور ایئرپورٹ سے لندن روانہ ہوئے تھے۔
’اس لڑائی کا کوئی انت نہیں‘
لاہور پولیس اس موضوع پر بالکل بھی بات کرنے کو تیار نہیں ہے۔ البتہ پنجاب پولیس کے سابق آئی جی خواجہ خالد فاروق کا کہنا تھا کہ ’یہ بہت پرانی لڑائی ہے اور دونوں دھڑے ہی بڑے طاقتور ہیں، اور ایک دوسرے کے اندر گھسے ہوئے ہیں اور انہیں بڑی طاقتوں کی پشت پناہی بھی حاصل ہے۔ اس بات میں بھی کوئی دو رائے نہیں ہو سکتی کہ کچھ پولیس افسران بھی اس سارے معاملے میں ان گروہوں کا ساتھ دیتے ہیں۔ ایسے کرپٹ افسران کی موجودگی سے انکار ممکن نہیں ہے۔‘
سابق آئی جی پنجاب سے پوچھا گیا کہ جب وہ پولیس کے سربراہ تھے تو اس مسئلے سے کیسے نمٹا گیا؟ تو ان کا کہنا تھا کہ ’یہ گینگز کی لڑائی اور دشمنی بڑے افسران تک اس وقت پہنچتی ہے جب لڑائی مار کٹائی والے اپنا مقصد حاصل کر چکے ہوتے ہیں۔‘
زیادہ سے زیادہ انسپکٹر اور ڈی ایس پی کی حد تک افسران ہی براہ راست اس میں دیکھے گئے ہیں۔ لیکن یہ گینگز سیاسی پشت پناہی پر زیادہ انحصار کرتے ہیں۔ کئی دہائیوں سے یہ لڑائی چل رہی ہے اور پولیس کے پاس اس کو کنٹرول کرنے کی کوئی استعداد نہیں ہے نہ کوئی طریقہ کار ہے اس لیے اس کا کوئی انت بھی نہیں ہے۔‘