Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

لاہور انڈر ورلڈ، جہاں لڑائی نصف صدی بعد بھی جاری ہے

انڈرورلڈ تازہ ترین لڑائی دو روز قبل لاہور کے علاقے چوہنگ میں دیکھنے کو ملی (فوٹو: پنجاب پولیس)
یہ لاہور پولیس کے لیے ایک بھاری دن تھا، اندرون لاہور سے تعلق رکھنے والے بالاج ٹیپو کا جنازہ اٹھ رہا تھا اور اوپر سے نیچے تک سب پولیس افسران سر جوڑے بیٹھے تھے۔
امیر بالاج ٹیپو کی ہلاکت ایک روز قبل چوہنگ کے علاقے میں فائرنگ سے اس وقت ہوئی تھی جب وہ ایک قریبی دوست کی شادی میں شرکت کے بعد وہاں سے نکل رہے تھے اور فائرنگ کرنے والا شخص بھی تقریب میں ہی موجود تھا۔
پولیس کے مطابق مبینہ قاتل کی شناخت مظفر حسین کے نام سے ہوئی ہے جو کہ سابق فوجی تھے۔
بالاج ٹیپو جب شادی کی تقریب سے نکلنے لگے تو مظفر حسین نے ان پر برسٹ چلا دیا، تاہم وہ خود بھی بالاج کے سکیورٹی گارڈز کا نشانہ بنا۔ زخمی بالاج اور ان کے دو دوستوں کو جناح ہسپتال لاہور لایا گیا جہاں وہ خود تو جانبر نہ ہو سکے البتہ ان کے دونوں دوست بچ گئے۔
اطلاع ملتے ہی لاہور پولیس کو الرٹ جاری کر دیا گیا۔ تھانہ چوہنگ میں واقعے کی ایف آئی آر امیر بالاج ٹیپو کے چھوٹے بھائی امیر مصعب کی مدعیت میں درج کر لی گئی ہے جس میں انہوں نے الزام عائد کیا ہے کہ طیفی بٹ اور گوگی بٹ نے ان کے بھائی کو پرانی دشمنی کی بنا پر قتل کروایا ہے۔

بلا ٹرکاں والا کے بیٹے بالاج ٹیپو ٹرکاں والا کو اتوار کو لاہور میں قتل کیا گیا (فوٹو: سکرین شاٹ)

پولیس کا ماننا ہے کہ امیر بالاج ٹیپو اسی دشمنی کی بھینٹ چڑھے ہیں جس کی وجہ سے ان کے والد ٹیپو ٹرکاں والا اور دادا بلا ٹرکاں دنیا سے گئے تھے۔
تین نسلوں پر محیط اس دشمنی کو سمجھنے کے لیے نصف صدی پیچھے سے شروع کرتے ہیں کہ لاہور کی انڈرورلڈ اصل میں ہے کیا اور یہ کیسے کام کرتی ہے اور اب تک کتنے افراد اس لڑائی کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں۔

بلا ٹرکاں والا گینگ

60 کی دہائی میں اندرون لاہور میں ٹرکوں کا اڈا چلانے والے بلا ٹرکاں والا سے شروع ہونے والی کہانی اب بھی زندہ ہے۔
ایکسپریس نیوز سے وابستہ تین دہائیوں سے کرائم رپورٹنگ کرنے والے صحافی سید مشرف شاہ بتاتے ہیں کہ ’بِلا لاہور کے انڈرولڈ کا بادشاہ مانا جاتا تھا۔ ان کے عروج کے دور میں ہر گینگ اور ہر اشتہاری ملزم ان کی دسترس میں تھا۔ شفیق عرف بابا، حنیف عرف حنیفا، اکبر عرف جٹ، ہمایوں گجر اور بھولا سنیارا جیسے بڑے بدمعاش ان کی مٹھی میں تھے اور ایک اشارے پر وہ کچھ کر دیتے تھے کہ علاقے میں بلے کی دھاک بیٹھ جاتی تھی۔‘
انہوں نے بات جاری رکھتے ہوئے بتایا کہ ’شفیق عرف بابا اور حنیف عرف حنیفا تو بلے کے ملازم تھے لیکن لاہور ان کی مٹھی میں تھا۔ تاہم کہانی نے ایک ایسا موڑ لیا کہ انہی دونوں نے بلے ٹرکاں والے کو انہی  کے ڈیرے پر قتل کر دیا۔ یہاں سے اس نہ ختم ہونے والی لڑائی کی شروعات ہوئی۔‘

60 کی دہائی میں ایک ٹرکوں کے اڈے سے شروع ہونے والی کہانی ابھی تک چل رہی ہے (فوٹو: فیس بک، ٹرکاں والا آفیشل)

بلا ٹرکاں والا کے قتل کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ اس گینگ سے ایک قتل ہو گیا جس میں بلے کا بیٹا عارف امیر عرف ٹیپو ٹرکاں والا کے ساتھ بابا اور حنیفا بھی ایف آئی آر میں نامزد ہو گئے۔ تاہم پولیس تفتیش میں ٹیپو کو بے گناہ قرار دے دیا گیا جبکہ بابا اور حنیفا جیل چلے گئے۔
سید مشرف شاہ بتاتے ہیں کہ ’انہوں نے کچھ عرصہ جیل میں گزارا اور اس کے بعد اندر سے ہی انہوں نے ساز باز کر کے ضمانت لی اور پھر اس بات کا غصہ بلا ٹرکاں والا کی موت کی صورت میں نکالا گیا۔ جب دونوں نے دن دیہاڑے بلے کو ان کے اپنے ڈیرے پر قتل کر دیا۔‘
لاہور کی انڈر ورلڈ کا یہ گینگ یہیں سے دو حصوں میں تقسیم ہو گیا۔ بلا ٹرکاں والا کے مقابلے میں اس وقت خواجہ تعریف بٹ عرف طیفی بٹ اور گوگی بٹ اس وقت لاہور میں اپنا چھوٹا گینگ چلا رہے تھے۔ اب ٹیپو کی آدھی طاقت ان کے اشتہاری اس گینگ سے جا ملے تھے جو بابا اور حنیفے کے ساتھ تھے۔
دوسری جانب ٹیپو ٹرکاں والا نے اپنے باپ کا بدلہ لینے کا کام جاری رکھا اور تمام معاملات اپنے ہاتھ میں لے لیے۔
کہا جاتا ہے کہ ایک ایک کر کے اپنے تمام مخالفین کو مروا دیا۔ سید مشرف شاہ بتاتے ہیں کہ ’دلچسپ بات یہ ہے کہ جو انداز ٹیپو نے اختیار کیا تھا وہ یہ تھا کہ اپنے تمام مخالفین کو شوٹروں سے مروایا۔ یعنی خود سامنے نہیں آئے بلکہ کرائے کے قاتل استعمال کیے۔ جس سے ٹیپو کا نام 80 اور 90 کی دہائی میں شاہ عالم گیٹ اور اندرون لاہور میں دہشت کی علامت بن کر ابھرا۔‘

بِلے ٹرکاں والے کو شفیق عرف بابا اور حنیف عرف حنیفا نے اپنے ڈیرے پر قتل کیا تھا (فوٹو: فیس بک، ٹرکاں والا آفیشل)

یہ گینگ وار اتنی بڑھ گئی کہ پنجاب حکومت کو اسے ختم کرنے کے لیے حکمت عملی اختیار کرنا پڑی اور پولیس مقابلوں میں اشتہاریوں کو مارنے کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ اس میں شدت شہباز شریف کے دور حکومت میں آئی جب عابد باکسر جیسے افسر پولیس مقابلوں کے لیے مشہور ہوئے۔
ٹیپو البتہ پولیس کے قابو پھر بھی نہیں آیا اور پھر 2003 میں لاہور کچہری کے باہر ٹیپو ٹرکاں والا پر ایک بڑا قاتلانہ حملہ ہوا جس میں مبین بٹ گینگ کے لوگ شامل تھے۔ اس حملے میں ٹیپو کے پانچ گارڈ مارے گئے۔ اور خود بھی شدید زخمی ہوئے۔
اس مقدمے میں طیفی بٹ اور گوگی بٹ دونوں بھائیوں کو نامزد کیا گیا۔ مشرف شاہ بتاتے ہیں کہ ’بات یہاں نہیں رکی، ٹیپو ٹرکاں والا پر یہ بھی الزام بھی لگا کہ انہوں نے ظفر عرف ظفری نت کو اس وقت قتل کروایا جب وه انسپکٹر عابد باکسر کو دہشت گردی کی عدالت میں پیشی کے موقع پر ملنے جا رہے تھے۔ ظفری نت اور مزید چار لوگوں کے قتل کا مقدمہ ٹیپو ٹرکاں والا پر ہی درج ہوا۔‘
اس گینگ کو پہلوان نامی ایک گینگسٹر کی بھی پوری آشیرباد حاصل تھی۔ بچھو پہلوان ٹیپو کا رائٹ ہینڈ تھا۔
ٹیپو نے پرویز مشرف دور میں اپنا کاروبار دبئی میں شفٹ کر لیا اور اپنے خاندان کے افراد خاص طور پر اپنے بڑے بیٹے بالاج ٹیپو کو بھی ملک سے باہر ہی رکھا اور تعلیم دلوائی۔
تاہم 2010 میں  ٹیپو ٹرکاں والا جب ملک لوٹے تو ان کو ایئرپورٹ پر ہی قتل کر دیا گیا ان پر خرم اعجاز نامی شخص نے گولیاں چلائیں جس کا مقدمہ طیفی بٹ، گوگی بٹ اور ملک احسان کے خلاف درج ہوا۔
عارف امیر ٹیپو ٹرکاں والا قتل کیس میں دہشتگردی کی عدالت نے مرکزی ملزم خرم اعجاز کو دو مرتبہ سزائے موت کی سزا سنائی تھی جو بعدازاں 25 سال میں تبدیل ہوئی۔
عارف امیر المعروف ٹیپو ٹرکاں والا کے بعد ان کا بیٹا بالاج ٹیپو ٹرکاں والا اپنی خاندانی دشمنی کو لے کر چل رہا تھا۔ ان کے گینگ میں پہلوان برادرز اور بابر بٹ لکھو ڈیریا برادرز شامل تھے۔ تاہم اب وہ خود بھی اسی دشمنی کی بھینٹ چڑھ گئے ہیں۔

ٹیپو ٹرکاں والا کو 2010 میں ملک لوٹتے ہی ایئرپورٹ پر قتل کر دیا گیا تھا (فوٹو: فیس بک، ٹرکاں والا آفیشل)

60 کی دہائی سے شروع ہونے والی لاہور کی انڈر ورلڈ نے زیر زمین دنیا کے ان گنت کردار پیدا کیے ہیں۔ کچھ پولیس کے ہاتھوں تو کچھ آپس کی گروہی لڑائی سے انجام کو پہنچے۔
لاہور میں گزشتہ 50 برس سے نوری نت، میاں معراج دین ماجھا سکھ، کالو شاہ پوریا، بھولا سنیارا، گوگی بٹ، طیفی بٹ، ریا ض گجر، اسلم ٹانگے والا، بلا ٹرکاں والا، ٹیپو ٹرکاں والا، ارشد امین چودھری، عابد چودھری، عاطف چودھری، نواز جٹ، ہمایوں گجر، حنیفا بابا، راجپوت برادری، شیخ روحیل اصغر، میاں اخلاق گڈو، بھنڈر، رئیس ٹینکی اور ملک زاہد گروپ کے درمیان دشمنیاں چلیں جن میں ایک ہزار سے زائد لوگ لقمہ اجل بنے۔
ان بڑے گروپس کے پیچھے اچھو باڑلا اور شیدی باڑلا جیسے لوگ ہوتے تھے، جو اہم کردار ادا کرتے تھے۔ انہی دشمنیوں میں سب سے بڑی دشمنی اخلاق گڈو اور شیخ روحیل اصغر گروپ کی تھی، جن میں اخلاق گڈو کا گروپ ماجھا سکھ سنبھالتا اور روحیل اصغر کے گروپ میں اچھو باڑلا اور چھیدی باڑلا شامل تھے۔
دونوں جانب سے درجنوں افراد قتل ہوئے۔ شیخ روحیل اصغر بعد ازاں مسلم لیگ ن کے اہم لیڈر اور ایم این اے بنے۔ ان کے والد شیخ اصغر اور ایک بھائی شیخ شکیل ارشد شادمان چوک میں اسی دشمنی کی نذر ہو گئے تھے
ان کرداروں پر لالی ووڈ میں بڑی بڑی فلمیں بھی بن چکی ہیں۔ ایک خیال یہ بھی ہے کہ ان فلموں پر پیسہ بھی یہ گینگ ہی لگاتے تھے۔

شیئر: