Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پاکستان میں طلبا تحریک سوشل میڈیا سے باہر نکل پائے گی؟

تحریک انصاف کے مخالفین طلبا تحریک کے حوالے سے سوشل میڈیا مہم پر ان کا مذاق اڑا رہے ہیں۔ فائل فوٹو: اے ایف پی
پاکستان میں سوشل میڈیا اور بالخصوص ایکس پر طلبا تحریک کے آغاز اور اس سلسلے میں ہزاروں طالب علموں کے دارالحکومت اسلام آباد پہنچنے کی پوسٹس آپ کی نظر سے گزری ہوں گی جن کے ذریعے یہ تاثر دینے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ بنگلہ دیش کے بعد اب پاکستان میں بھی طلبا تحریک انصاف کے بانی اور سابق وزیراعظم عمران خان سمیت دیگر رہنماؤں اور کارکنوں کی رہائی کے لیے فیصلہ کن تحریک چلانے کی تیاری کر چکے ہیں۔
انصاف سٹوڈنٹس فیڈریشن (آئی ایس ایف) کی جانب سے اگرچہ بنگلہ دیش میں طلبا تحریک کی کامیابی کے فوراً بعد پاکستان میں بھی طلبا تحریک چلانے کا اعلان کیا گیا تھا لیکن عملی طور پر اس حوالے سے بہت زیادہ سرگرمی دکھائی نہیں دی۔
کچھ شہروں میں طالب علم یا تحریک انصاف کے کارکن ہفتہ وار احتجاجی مظاہرے کر رہے ہیں جن میں وہ سابق وزیراعظم عمران خان کی رہائی کا اپنا مطالبہ دہراتے ہیں۔
پاکستانی میڈیا اس حوالے سے خاموش ہے جبکہ تحریک انصاف کے آفیشل اور اس کے حامیوں کے ایکس اکاؤنٹس پر ان احتجاجی مظاہروں کی ویڈیوز یا تصاویر دیکھنے کو مل رہی ہیں۔
گذشتہ پورا ہفتہ سوشل میڈیا پر یہ خبریں گردش کرتی رہی ہیں کہ طالب علموں کی ایک بڑی تعداد اسلام اباد پہنچ چکی ہے جب کہ بہت سے طلبا اور کارکن خیبر پختونخوا میں جمع ہو رہے ہیں، جو 30 یا 31 اگست کو اچانک اسلام آباد پہنچ جائیں گے۔ اس نوعیت کی پوسٹیں کرنے والوں کو ان کے مخالفین کی جانب سے تنقید اور ٹرولنگ کا نشانہ بھی بنایا جاتا رہا ہے۔ 
تحریک انصاف کے مخالفین طلبا تحریک کے حوالے سے اس سوشل میڈیا مہم پر ان کا مذاق اڑا رہے ہیں۔ 
31 اگست کو اسلام آباد میں تو ایسی کسی سرگرمی کا انعقاد نہیں ہوا تاہم اتوار کے روز لاہور اور دیگر شہروں میں ہونے والے مظاہروں کو طلبا تحریک کے آغاز کا نام دیا جاتا رہا۔ انصاف سٹوڈنٹ فیڈریشن کی جانب سے اسے مگر طلبا کو موبلائز کرنے یا آگاہی مہم کا نام دیا گیا۔ 

 
ایسے میں سوال یہ اُٹھ رہا ہے کہ کیا تحریک انصاف یا آئی ایس ایف کی طلبا تحریک سوشل میڈیا سے نکل کر عملی شکل اختیار کر سکتی ہے؟
تجزیہ کاروں کی رائے ہے کہ پاکستان میں فی الحال کسی بھی بڑی طلبا تحریک کے چلنے یا اس کی کامیابی کا کوئی امکان موجود نہیں۔
سیاسی امور کے ماہر پروفیسر رسول بخش رئیس نے اردو نیوز سے گفتگو میں کہا کہ ’سوشل میڈیا پر طلبا تحریک کے لیے مہم چلانے والے یہ تو بتا دیں کہ وہ اس تحریک کے لیے طلبہ کس جماعت سے لیں گے؟‘
انہوں نے کہا کہ 'اس وقت پاکستان میں تین سیاسی جماعتیں ہیں جو طلبا تحریک چلا سکتی ہیں جن میں جماعت اسلامی کی اسلامی جمعیت طلبا نمایاں ہے جو کالجوں اور یونیورسٹیوں کے طلبا پر مشتمل ہے۔ دوسرے نمبر پر جمعیت علمائے اسلام (ف)کی جمعیت طلبائے اسلام ہے جس میں زیادہ تر طلبا کا تعلق مدارس سے ہے جب کہ تیسرے نمبر پر تحریک انصاف کا طلبا ونگ انصاف سٹوڈنٹس فیڈریشن ہے۔‘
ڈاکٹر رسول بخش رئیس کے مطابق ’اس وقت ان تینوں طلبا تنظیموں کے لیے ممکن نہیں کہ وہ ملک گیر سیاسی تحریک چلا سکیں اور نہ ہی ان کے لیے کوئی گنجائش موجود ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بنگلہ دیش اور پاکستان کے حالات میں بہت زیادہ فرق ہے۔'
انہوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا ’بنگلہ دیش میں معاشرہ اس قدر تقسیم کا شکار نہیں تھا جتنا پاکستان میں ہے۔ اور اگر تھا بھی تو ان کے حسینہ واجد مخالف جذبات مشترک ہو گئے تھے اور اس کے ساتھ کوٹا سسٹم کے متاثرین سب کے سب نوجوان تھے۔ یہاں وہ حالات نہیں کہ پاکستان بھر کی تمام سیاسی جماعتوں اور مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے طلبا ایک پلیٹ فارم پر متحد ہو جائیں اور کوئی تحریک شروع کر سکیں۔'

انہوں نے اسلام آباد میں طلبا کے بڑی تعداد میں پہنچنے کے حوالے سے پوسٹوں پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ’ڈھاکہ اور اسلام آباد میں بہت فرق ہے جبکہ لاہور، اسلام آباد اور کراچی میں بھی بڑا فرق ہے۔ کراچی میں تو ایم کیو ایم، جماعت اسلامی یا کوئی سندھی تنظیم پورا شہر بند کر سکتی ہے۔ لیکن لاہور اور اسلام آباد میں کسی ایک تنظیم کے لیے ایسا کرنا ناممکن ہے۔‘
سیاسی تجزیہ کار ماجد نظامی بھی یہ سمجھتے ہیں کہ ’پاکستان میں اس وقت منظم طلبہ تحریک چلانا ناممکن ہے یا اس کا کوئی امکان نہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان میں ضیاالحق کے دور کے بعد منظم طریقے سے طلبا سیاست کا راستہ روکا گیا اور سیاسی جماعتوں نے اپنے طلبا ونگ مضبوط نہیں کیے۔ حتیٰ کہ نوجوانوں کی جماعت سمجھی جانے والی تحریک انصاف نے بھی اپنے سٹوڈنٹ ونگ کو بہت زیادہ اہمیت نہیں دی۔‘
ماجد نظامی نے کہا کہ ’موجودہ صورتِ حال کو سامنے رکھتے ہوئے یہی کہا جا سکتا ہے کہ تحریک انصاف کے لوگ سوشل میڈیا اور ووٹ کے ذریعے تو اپنی رائے کا اظہار کرنا چاہتے ہیں لیکن وہ گراؤنڈ پر کسی قسم کی تحریک کا عملی طور پر حصہ بننے کے لیے تیار نہیں اس لیے ملک میں کسی بڑی طلبا تحریک کے چلنے کا کوئی امکان موجود نہیں۔‘

شیئر: