گزشتہ کئی مہینوں سے ملک میں دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)
دلی کے شاعر واقع ہوئے ہیں راجنیدر من چندا۔ من تو ان کا ملتان سے تھا، لیکن چندا یہ بٹوارے کی وجہ سے دہلی جا کر کہلائے۔ وہاں درس و تدریس کے شعبے میں عمر گزاری، اسی کی دہائی میں چل بسے تھے، عجب شاعر تھے، بانی تخلص کیا کرتے تھے، ستمبر کی آمد پر یاد آئے،
صد سوغات سکوں فردوس ستمبر آ
اے رنگوں کے موسم منظر منظر آ
معلوم ہوا کہ ستمبر تو سکوں فردوس ہوا کرتا تھا، رنگوں کا موسم کہلاتا تھا لیکن وقت بدلا، رُت بدلی، منظر بدلا تو ہماری پیڑی کے شعرا کو ستمبر ستمگر دکھائی دینے لگا، اطیب قادری نے اسی مدعے پر جبھی تو کہا:
ہمارے ہاں بھی حالیہ چند برسوں سے ستمبر سکوں فردوس نہیں رہا، ستمگر ہی کہلاتا ہے۔
ابھی کا تازہ سیاسی و غیر سیاسی منظر نامہ ہی دیکھ لیجیے، کہیں مذاکرات کا راگ الاپا جا رہا ہے تو کہیں ناہیں ناہیں کی تکرار۔ کہیں میں نہ مانوں کی ضد ہے تو کہیں اک دوجے کے وجود کو تسلیم کرنے سے انکار کی روش، کہیں امن و امان کی ناقص صورتحال ہے تو کہیں ہچکولے کھاتی معیشت۔ کہیں میاں صاحب کی چپ ہے تو کہیں مولانا کو رام کرنے کی کوششیں، کہیں فیض حمید کا کورٹ مارشل ہے تو کہیں عدلیہ کو نکیل ڈالنے کی پلاننگ۔ کہیں حکومتی ساکھ کو درپیش چیلنجز ہیں تو کہیں آزادی رائے پر قدغن کے منصوبے۔
اب ایسے میں ستمبر خاک سکوں فردوس ہو؟ یہاں تو اسی ماہ عدلیہ سے دو دو ہاتھ کی جانکاری ہے، کورٹ مارشل سے تانے بانے کہیں اور لے جا کر 9 مئی کا انت مطلوب ہے۔ سر اٹھاتی دہشت گردی پر تمام تر طاقت کے ساتھ نمٹنے کا پلان ہے۔
9 مئی کو ریڈ لائن مان کر غیرمشروط معافی کی طلب ہے۔ میڈیا اور سوشل میڈیا کو ضابطے کے نام پر مزید ریگولیٹ کرنے کی اکشا ہے۔ تو پھر ایسے میں اچکزئی اور رانا ثنا کیا بانسری بجائیں گے؟ میاں نواز شریف تمام پارٹیوں کے ساتھ مل بیٹھنے کا کون سا خواب پورا کریں گے حالانکہ خواجہ آصف اس کی تردید بھی کر چکے ہیں؟ کپتان فیصلہ کرنے والوں سے ہی کیسے بات چیت کو یقینی بنا پائیں گے؟
سامنے کی بات ہے کہ یہ سب کہانیاں بازیگروں کی رنگ بازیاں ہیں۔ فواد چوہدری کہتے ہیں کہ انہیں بتایا گیا ہے کہ اچکزئی اور رانا ثنا کے بیچ گفتگو دو ماہ سے جاری ہے۔ اب پیشرفت ہونے پر مذاکرات کی خبر کو میڈیا سے شیئر کیا گیا ہے۔ یہ ایک مثبت قدم ہے، اس پیش رفت سے پاکستان کی خدمت ہو گی۔ اللہ کرے ایسا ہو مگر خاکسار کی جانکاری اس کے برعکس ہے۔
جانکاری کی دلیل جنرل فیض حمید کی گرفتاری اور ان کا کورٹ مارشل ہے۔ دوسری دلیل ان کے حوالے سے جاری دو پریس ریلیزز کے آخری پیراگراف کا متن ہے جس کا سیاق و سباق نو مئی اور پی ٹی آئی سے تانے بانے بننے سے تعلق رکھتا ہے۔ دو ماہ سے مذاکرات جاری تھے اور پیشرفت ہونے پر میڈیا تک کہانی پہنچی تو پھر اس بیچ فیض حمید سے جڑی سازش والی اہم ترین کارروائی کی ضرورت کیوں پیش آئی؟
کپتان کو دیکھ لیجیے، اڈیالہ سے بیان دیا کہ ’بات چیت کے لیے ہمیشہ تیار ہیں کبھی انکار نہیں کیا، بات ان سے کریں گے جن کے پاس فیصلہ کرنے کی قابلیت ہے۔ اچکزئی کو بات کرنے کا مینڈیٹ دیا ہے وہ ان سے کوئی آفر لے کر آئیں تو بات بڑھے گی، ہم ان سے بات کریں گے تو مطلب ہم نے ’فراڈ الیکشن‘ قبول کر لیا۔‘
اُدھر ن لیگ کی کہانی بھی سن لیجیے، وہ چاہتے ہیں کہ بات چیت براہ راست پی ٹی آئی سے ہو، پردہ داری مقصود ہو تو اسے خفیہ رکھا جا سکتا ہے، لیکن وہ یہ نہیں جانتے کہ کپتان ظاہری اور خفیہ دونوں ترتیبوں میں لیگی سرکار سے مل بیٹھنے کو تیار ہی نہیں۔
تو پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جنرل فیض حمید کے کورٹ مارشل کی انتہائی اہم ترین پیشرفت کے ساتھ مذاکرات کی کہانی کی حقیقت کیا ہے؟ ادنیٰ سی رائے ہے کہ یہ کہانیاں فیس سیونگ ہیں۔ سیاسی ساکھ اور جمہوری رنگ بچانے کی ہیں۔ پی ٹی آئی بالخصوص یہ ضرور چاہے گی کہ لیگی آفرز اور مذاکرات کی بات کو بڑھا چڑھا کر پیش کریں۔ کیوں بھلا؟ کیونکہ پی ٹی آئی جانتی ہے کہ اصل سرکار کی مرضی کے بغیر شہباز سرکار خود سے مذاکرات کی میز تک نہیں سجا سکتی۔ مذاکرات کی کامیابی بذریعہ شہباز سرکار تو دور کی بات۔
لیکن اس بڑھاوے سے ہوگا کیا؟ ظاہر ہے اصل سرکار اور شہباز سرکار کے بیچ غلط فہمی کی طلب اور بھلا کیا؟
مسئلہ بازیگروں کی رنگ بازیاں ہیں۔ ستمبر کی ستمگری انہی رنگ بازیوں کے کارن زبان زد عام ہوئی ہے۔ مسئلہ ایک دوجے کے وجود کو تسلیم نہ کرنے کا ہے۔ مسئلہ انا اور ضد ہے۔ مسئلہ 9 مئی کا ہے۔ مسئلہ ساکھ کا ہے۔ مسئلہ عوام کا تو ہے ہی نہیں۔