Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

مولانا فضل الرحمان ’اپوزیشن‘ یا ’حکمراں اتحاد‘ میں سے کس کا انتخاب کریں گے؟

جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان پاکستان کے سیاسی منظرنامے پر ایک بار پھر اہم کردار ادا کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔ اپوزشین جماعتیں اور حکمراں اتحادی دونوں ہی اُنہیں اپنے ساتھ ملانے کے لیے متحرک ہیں۔
گزشتہ دو روز کے دوران جہاں پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین بیرسٹر گوہر علی خان کی قیادت میں پی ٹی آئی کے وفد نے مولانا فضل الرحمان سے ملاقات کی وہیں صدر مملکت آصف علی زرداری نے بھی مولانا فضل الرحمان سے ملاقات کر چکے ہیں۔
مولانا فضل الرحمان سے ہونے والی اِن دونوں ملاقاتوں کا اصل مقصد اُن کی حمایت حاصل کرنا تھا تاہم جمعیت علمائے اسلام کی جانب سے ابھی کوئی حتمی فیصلہ نہیں کیا گیا۔
اِس بارے میں جمیعیت علمائے اسلام کے سینیئر رہنما اور مرکزی ترجمان اسلم غوری نے اُردو نیوز کو بتایا ہے کہ ’ہم اتحاد کی سیاست سے تنگ آ چکے ہیں۔ حکومتی اور اپوزیشن جماعتیں ہمارے پاس آ رہی ہیں وہی ہمارے ساتھ چلیں گی ہم ان کے ساتھ نہیں۔‘
تاہم پاکستان تحریک انصاف مولانا فضل الرحمان کو اپنے ساتھ ملانے کے لیے پُراُمید ہے۔
پی ٹی آئی کی مذاکراتی ٹیم کے رکن اخونزادہ حسین یوسفزئی کا کہنا ہے کہ ’مولانا فضل الرحمان کے ساتھ بات چیت مثبت انداز میں آگے بڑھ رہی ہے۔ دونوں جماعتوں کو موجودہ حکومت پر شدید تحفظات ہیں۔‘
دوسری جانب سیاسی تجزیہ کار سمجھتے ہیں کہ مولانا فضل الرحمان کی سیاست کو دیکھتے ہوئے وہ اس وقت بھی حکمران اتحاد یعنی مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے اتحادی بننے کے لیے زیادہ موزوں ہیں مگر وہ کسی اتحاد میں شامل ہونے کا فیصلہ ملک کے مجموعی سیاسی حالات دیکھتے ہوئے کریں گے۔

مولانا فضل الرحمان سے پی ٹی آئی وفد کی ملاقات

حکومت کے خلاف مل کر تحریک چلانے کے معاملے پر جمعے کو مولانا فضل الرحمان سے پی ٹی آئی وفد نے ملاقات کی تھی جبکہ سنیچر کو پی ٹی آئی رہنما اخونزادہ حسین یوسفزئی اُن سے دوسری ملاقات بھی کر چکے ہیں۔
پی ٹی آئی وفد کی مولانا فضل الرحمان سے ہونے والی ملاقات میں سیاسی صورتحال پرمشاورت کی گئی تھی اور اس حوالے سے مختلف فیصلے بھی کیے گئے ہیں۔

اسلم غوری کے مطابق ’مولانا فضل الرحمان حکومت اور اپوزیشن دونوں کے لیے ہی اہم ثابت ہو رہے ہیں۔‘ (فوٹو: اے ایف پی)

ملاقات کے بعد پی ٹی آئی اور جے یو آئی رہنماؤں نے میڈیا سے گفتگو میں بتایا تھا کہ ’پارلیمنٹ میں قانون سازی پر مشترکہ طور پر آگے بڑھنے کا فیصلہ ہوا ہے۔ سینیٹ اور قومی اسمبلی میں دو رکنی کمیٹی تشکیل دی ہے جو پارلیمانی معاملات کو آگے لے کر چلے گی۔‘
جمعیت علمائے اسلام کے ترجمان اسلم غوری سے جب حکمراں یا اپوزیشن اتحاد میں شمولیت کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے اُردو نیوز کو بتایا کہ ’ہم اتحاد میں شامل ہونے کی سیاست سے تنگ آ چکے ہیں اب اپنے بل بوتے پر تحریک چلا رہے ہیں۔‘
اُنہوں نے پی ٹی آئی رہنماؤں اور آصف علی زرداری کے ساتھ مولانا فضل الرحمان کی ملاقاتوں پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ حکومتی اتحادی ہوں یا اپوزیشن جماعتیں دونوں ہمارے پاس آ رہے ہیں ہم اُن کی طرف نہیں جا رہے، اس لیے یہ فیصلہ بھی ہم کریں گے کہ ہمارے ساتھ کون اور کس طرح آگے بڑھے جائے گا۔‘
انہوں نے پی ٹی آئی کا نام لیے بغیر کہا کہ ’سیاسی جماعتیں یہ طے نہیں کر پا رہیں کہ کب جلسہ کرنا ہے اور کب نہیں۔ اسی طرح حکمراں اتحاد عوام کو ریلیف نہیں دے پا رہا، ایسی صورتحال میں ہم کسی اتحاد میں کیسے شامل ہو سکتے ہیں۔‘
اسلم غوری کے مطابق ’تمام سیاسی جماعتیں مولانا فضل الرحمان کی اصولی سیاست کو سلام کرتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مولانا فضل الرحمان حکومت اور اپوزیشن دونوں کے لیے ہی اہم ثابت ہو رہے ہیں۔‘

’آصف زرداری مولانا فضل الرحمان سے ملاقات کے بعد زیادہ خوش نہیں‘

مولانا فضل الرحمان سے ملاقات کرنے والے پی ٹی آئی رہنما اخونزادہ حسین یوسفزئی نے اُردو نیوز کو بتایا کہ جمعیت علمائے اسلام اور تحریک انصاف دونوں اپوزیشن کی جماعتیں ہیں جن کے موجودہ حکومت پر شدید تحفظات ہیں۔
اُنہوں نے کہا کہ مولانا فضل الرحمان کو اپوزیشن تحریک میں شامل کرنے کے معاملے پر مثبت پیش رفت ہو رہی ہے اس پرجمیعت علمائے اسلام کو کوئی ابہام نہیں ہے۔
’ہم پُراُمید ہیں کہ جمیعت علمائے اسلام پی ٹی آئی اور دیگر اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ مل کر آگے بڑھے گی۔ دونوں جماعتوں کے درمیان اتفاق رائے کے لیے طے شدہ وقت پر ہی ملاقاتیں ہو رہی ہیں۔‘
دونوں رہنماؤں کی ملاقات پر تبصرہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’مولانا فضل الرحمان ایک سینیئر سیاستدان ہیں جن سے ملاقات کے لیے کوئی بھی ان کے گھر آ سکتا ہے۔ آصف علی زرداری بھی مولانا صاحب کو حکمراں اتحاد کے ساتھ ملانے کے لیے سرگرم ہیں تاہم گزشتہ روز کی ملاقات کے بعد زیادہ خوش واپس نہیں لوٹے۔‘

اسلم غوری نے پی ٹی آئی کا نام لیے بغیر کہا کہ ’سیاسی جماعتیں یہ طے نہیں کر پا رہیں کہ کب جلسہ کرنا ہے اور کب نہیں‘ (فوٹو: اے ایف پی)

مولانا فضل الرحمان حکومت اور اپوزیشن کے لیے اہم کیوں؟

سینیئر سیاسی تجزیہ کار حسن عسکری کے خیال میں پارلیمنٹ میں قانون سازی کا معاملہ ہو یا اپوزیشن کی پر زور تحریک دونوں ہی صورتوں میں مولانا فضل الرحمان کی جماعت کلیدی کردار ادا کر سکتی ہے۔
اُنہوں نے اُردو نیوز سے گفتگو میں کہا کہ ’قومی اسمبلی یا سینیٹ میں قانون سازی بالخصوص کسی آئینی ترمیم کے لیے جے یو آئی کے ووٹ فیصلہ کن ہو ثابت ہو سکتے ہیں۔ یہ بھی ایک وجہ ہے کہ حکومت مولانا فضل الرحمان کو ساتھ ملانا چاہتی ہے۔‘
اُنہوں نے پی ٹی آئی کی مولانا کو رام کرنے کی کوششوں پر کہا کہ اگر جمعیت علمائے اسلام، پی ٹی آئی کے ساتھ مل کر حکومت کو پارلیمان یا سڑکوں پر ٹف ٹائم دیتی ہے تو اس صورت میں پی ٹی آئی کے پاس حکومت سے لین دین کے آپشنز زیادہ ہوں گے۔
’حکومت پر دُور رس بنیادوں کے لیے دباؤ ڈالنے کے لیے اپوزیشن الائنس بننا ضروری ہے اور اس کے برعکس حکمراں اتحاد ایسے کسی الائنس بننے کے حق میں نہیں ہے۔‘

’مولانا فضل الرحمان اپنے آپشنز کھلے رکھ رہے ہیں‘

حسن عسکری نے جمعیت علمائے اسلام کی جانب سے حکمراں اتحاد یا اپوزیشن الائنس میں شامل نہ ہونے کی وجوہات کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ مولانا فضل الرحمان کے لیے اس وقت صورتحال کوئی واضح نہیں ہے۔
’وہ حکومت کی مدّت اسٹیبلشمنٹ کے کردار اور اپوزیشن یعنی پی ٹی آئی کے مستقبل کو دیکھتے ہوئے آخر میں کسی ایک آپشن کا انتخاب کر سکتے ہیں۔ اس وقت لگ یہی رہا ہے کہ مولانا فضل الرحمان کسی اتحاد میں شامل ہونے کے بجائے اپنی موجودہ پوزیشن برقرار رکھیں گے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ مولانا فضل الرحمان اپوزیشن اور حکومت کو یہ بتانا چاہتے ہیں کہ سیاست میں تعلق زیادہ خراب نہیں کرتے کیونکہ پی ٹی آئی ہمیشہ جے یو آئی کو تنقید کا نشانہ بناتی آئی ہے اور اس بار حکمراں اتحاد نے بھی حکومت سازی میں مولانا کو زیادہ اہمیت نہیں دی۔
سیاسی تجزیہ ضیغم خان سمجھتے ہیں کہ جمیعت علمائے اسلام کے ملک بھر میں بڑی تعداد میں منظّم کارکنان کسی بھی حکومت مخالف تحریک میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
’کسی عام سیاسی جماعت کے کارکنان کی نسبت جے یو آئی کے کارکنان کے خلاف مار کٹائی زیادہ مفید ثابت نہیں ہو سکتی۔‘
انہوں نے اُردو نیوز کو بتایا کہ جے یو آئی کی ’سٹریٹ پاور‘ اِنہیں دوسری سیاسی جماعتوں سے ممتاز کرتی ہے۔
’مولانا فضل الرحمان کو اہمیت دینے کی دوسری وجہ پارلیمان میں نمبرز گیم ہے۔ اگرچہ ماضی کی نسبت مولانا کی پارلیمان میں کوئی زیادہ نمائندگی نہیں تاہم موجودہ پوزیشن میں بھی وہ حکومت یا اپوزیشن جماعتوں کے لیے اہم ہیں۔‘
ضیغم خان کے بقول ’چونکہ جمیعت علمائے اسلام اور پاکستان تحریک انصاف کا ماضی بالکل اچھا نہیں رہا، جے یو آئی کی صوبائی اور قومی اسمبلی میں نمائندگی پی ٹی آئی کہ وجہ سے ہی کم ہوئی۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’بانی پی ٹی آئی عمران خان اور جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمان ایک دوسرے پر شدید تنقید کرتے آئے ہیں۔‘
اس کے برعکس مولانا فضل الرحمان ن لیگ اور پیپلز پارٹی کے اتحادی رہ چکے ہیں حال ہی میں پی ڈی ایم حکومت کا بھی حصہ تھے۔
اِن وجوہات کی روشنی میں جمعیت علمائے اسلام کا ’نیچرل الائز‘ حکمراں اتحاد ہی ہے تاہم مولانا فضل الرحمان کافی سوچ سمجھ کے فیصلہ کریں گے۔ 

شیئر: