محمود اچکزئی حکومت اور پی ٹی آئی کو قریب لانےمیں کامیاب ہونگے؟
محمود اچکزئی حکومت اور پی ٹی آئی کو قریب لانےمیں کامیاب ہونگے؟
اتوار 1 ستمبر 2024 18:41
صالح سفیر عباسی، اسلام آباد
محمود خان اچکزئی نے سنیچر کو اس بات کی تصدیق کی تھی کہ اُن کی رانا ثنااللہ کے ساتھ پارلیمنٹ ہاؤس میں ملاقات ہوئی ہے۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)
پاکستان کی وفاقی حکومت اور اپوزیشن اتحاد تحریک تحفظ آئین پاکستان کے درمیان مذاکرات کے لیے روابط کا آغاز ہو گیا ہے۔ اس حوالے سے حکومتی مذاکراتی ٹیم کے اہم رکن رانا ثنااللہ نے تحریک تحفظ آئین پاکستان کے سربراہ محمود خان اچکزئی سے بات چیت کا آغاز کیا ہے جس میں دونوں فریقین کے درمیان مذاکرات کو باضابطہ طور پر آگے بڑھانے جیسے اُمور پر گفتگو کی گئی ہے۔
اس پیشرفت کے بعد بظاہر حکومت اور اپوزیشن کے درمیان مذاکرات آگے بڑھنے کا امکان پیدا ہو گیا ہے۔
تحریک تحفظ آئین پاکستان کے مرکزی ترجمان اخونزادہ حسین یوسفزئی نے اُردو نیوز سے گفتگو میں رانا ثنااللہ اور محمود خان اچکزئی کے درمیان رابطے کی تصدیق کی ہے، تاہم اُن کا کہنا تھا کہ ابھی مذاکرات کا باضابطہ آغاز نہیں ہوا۔
دوسری جانب پاکستان تحریک انصاف کے سینیئر رہنما شعیب شاہین کا کہنا ہے کہ حکومت کی مذاکراتی کمیٹی نے براہ راست رابطہ نہیں کیا۔
انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی کی جانب سے محمود خان اچکزئی کو اختیارات حاصل ہیں وہی مذاکرات کے معاملے کو دیکھ رہے ہیں۔
اس حوالے سے پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین بیرسٹر گوہر خان کا بھی کہنا ہے کہ حکومت کے ساتھ براہ راست مذاکرات ہوئے ہیں اور نہ ہی ہوں گے۔ پی ٹی آئی حکومت سے براہ راست بات چیت نہ کرنے کے اپنے موقف پر قائم ہے۔ بطور اپوزیشن جماعت ہماری سپیکر قومی اسمبلی سے ملاقاتیں ہوتی رہتی ہیں جو اسمبلی اُمور چلانے یا اپوزیشن کے پارلیمانی معاملات کے بارے میں ہوتی ہیں۔
رانا ثنااللہ اور محمود خان اچکزئی کے درمیان رابطہ
گذشتہ روز سنیچر کو تحریک تحفظ آئین پاکستان کے سربراہ محمود خان اچکزئی نے اس بات کی تصدیق کی تھی کہ اُن کی رانا ثنااللہ کے ساتھ پارلیمنٹ ہاؤس میں ملاقات ہوئی ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ مذاکرات کے شروع ہونے یا نہ ہونے کی تردید یا تصدیق نہیں کرتا مگر مذاکرات کے سوا کسی کے پاس کوئی راستہ نہیں۔
اس بارے میں مزید جاننے کے لیے جب تحریک انصاف تحفظ آئین پاکستان کے ترجمان اخونزادہ حسین یوسفزئی سے رابطہ کیا گیا تو اُن کا کہنا تھا کہ مذاکرات میں پیش رفت تو ہر صورت ہونی ہے کیونکہ اس وقت ملک کے سیاسی و معاشی حالات سازگار نہیں ہیں، اور اس کی بہتری کے لیے اپوزیشن کا ساتھ نہایت ضروری ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس وقت تمام اپوزیشن جماعتوں کے موجودہ حکومت پر تحفظات ہیں اور سیاسی جماعتوں کو آئین کی بالادستی کے لیے کھڑا ہونا پڑے گا۔
اخونزادہ حسین یوسفزئی کے مطابق حکومت کی طرف سے محمود خان اچکزئی سے رابطہ ہوتا رہتا ہے۔ حالیہ دنوں میں بھی محمود خان اچکزئی سے وزیراعظم کے مشیر رانا ثنا اللہ نے رابطہ کیا ہے، جس میں مذاکرات کے حوالے سے بات چیت ہوئی ہے۔
دوسری جانب پاکستان تحریک انصاف کے سنیئر رہنما شعیب شاہین کا کہنا تھا کہ بانی پی ٹی آئی عمران خان کی ہدایات کے مطابق حکومت سے براہ راست بات چیت نہیں ہو گی۔ اگر کوئی پیشرفت ہوئی بھی تو وہ تحریک تحفظ آئین کے پلیٹ فارم سے ہو گی۔
’بات چیت کے لیے پی ٹی آئی کو یوٹرن لینا ہو گا‘
ان مذاکرات کے حوالے سے تجزیہ کار ضیغم خان سمجھتے ہیں کہ محمود خان اچکزئی کی سربراہی میں حکومت سے مذاکرات میں کسی پیشرفت کے امکانات بہت کم ہیں۔
اُن کے خیال میں پاکستان تحریک انصاف کی طرف سے محمود خان اچکزئی کو مذاکرات کا اختیار حکومت کے لیے ایک اچھا موقع تو ہے تاہم حکومت نے اب یہ کہہ دیا ہے کہ ہم براہ راست بات چیت کریں گے جس کے لیے پی ٹی آئی کو یوٹرن لینا پڑے گا۔
ضیغم خان کا کہنا تھا کہ ابھی تک دونوں فریقین کے درمیان باضابطہ مذاکرات کا آغاز نہیں ہوا۔ پی ٹی آئی نے مذاکرات کے لیے محمود خان اچکزئی کو اجازت دی ہے کیونکہ وہ براہ راست بات کرنے کے لیے بھی تیار نہیں ہیں۔
’دوسری جانب حکومتی مؤقف یہ سامنے آیا ہے کہ ہم سے مذاکرات کی جو بات بھی کریں وہ براہ راست ہونی چاہیے تاہم مجھے نہیں لگ رہا کہ بانی پی ٹی براہ راست بات کرنے کے رضامند ہو گے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’اس تمام صورتحال میں حکومت اور اپوزیشن کے درمیان مذاکرات میں کسی پیشرفت یا کامیابی کے امکانات کم ہو جاتے ہیں۔ حکومت براہ راست بات کرنا چاہتی ہے اور پی ٹی آئی حکومت سے براہ راست مذاکرات کے حق میں نہیں کیونکہ اُن کے نزدیک یہ حکومت ناجائز ہے اور فارم 47 کی پیدوار ہے۔‘