پنجاب کی سڑکوں پر پولیس اہلکاروں کے لفٹ لینے پر پابندی کیوں لگائی گئی؟
پنجاب کی سڑکوں پر پولیس اہلکاروں کے لفٹ لینے پر پابندی کیوں لگائی گئی؟
جمعرات 5 ستمبر 2024 18:41
رائے شاہنواز -اردو نیوز، لاہور
پولیس اہلکاروں کے مطابق ان کی تنخواہ اتنی نہیں کہ وہ روزانہ کرایہ ادا کر کے دفتر آئیں (فائل فوٹو: اے ایف پی)
اگر آپ موٹروے پر تواتر سے سفر کرتے ہیں تو آپ نے مختلف ٹول پلازوں خاص طور پر ایم ٹو پر خانقاہ ڈوگراں کے پاس یونیفارم میں ملبوس پولیس اہلکار مسافر گاڑیوں اور بسوں سے لفٹ لیتے ہوئے ضرور دیکھے ہوں گے، تاہم اب اہلکاروں کے لفٹ لینے پر محکمے کی جانب سے پابندی عائد کر دی گئی ہے۔
پنجاب کے محکمہ ہائی وے پیٹرول نے موٹرویز سمیت صوبے کی شاہراہوں پر پولیس اہلکاروں کے پرائیویٹ گاڑیوں سے لفٹ لینے پر پابندی ایک تحریری حکم نامے کے ذریعے عائد کی ہے۔
محکمے کی جانب سے پیٹرولنگ پولیس کی تمام چوکیوں کو لکھے گئے مراسلے میں پنجاب کانسٹیبلری کے افسران اور اہلکاروں کو لفٹ لینے سے باضابطہ طور پر منع کردیا گیا ہے۔
مراسلے کے مطابق ’پنجاب کانسٹیبلری کا کوئی بھی افسر یا اہلکار موٹروے یا جی ٹی روڑ پر پرائیویٹ گاڑیوں سے لفٹ لیتا پایا گیا یا اُن کے خلاف اس قسم کی کوئی شکایت موصول ہوئی تو اُن کے خلاف تادیبی اور محکمانہ کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔‘
اس حوالے سے اردو نیوز نے کئی پولیس اہلکاروں سے بات کی ہے جو روزانہ کی بنیاد پر موٹروے پر لفٹ لے کر سفر کرتے ہیں اور اس حکم نامے سے سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں، تاہم ان کی درخواست پر ان کے دُرست نام نہیں لکھے جا رہے۔
پنجاب کانسٹیبلری (پی سی) کے اہلکار محمد عادل نے بتایا کہ وہ خانقاہ ڈوگراں کے قریب واقع پی سی ہیڈکوارٹرز میں کئی برسوں سے ڈیوٹی پر مامور ہیں۔
’میں تین برسوں سے یہاں ڈیوٹی پر تعینات ہوں اور روزانہ 35 کلومیٹر کا سفر کر کے گھر سے یہاں آتا ہوں۔ اگرچہ یہاں ہیڈکوارٹرز کے اندر رہائش کا بندوبست موجود ہے لیکن اس کا معیار بہت خراب ہے۔‘
ان کے مطابق ہمارے اوپر یہ قدغن بھی نہیں کہ وہاں ہی رہائش بھی رکھی جائے اس لیے ڈیوٹی پر مامور اکثر جوان ڈیوٹی کے بعد اپنے گھروں کو واپس چلے جاتے ہیں، اگرچہ روزانہ آنا جانا ایک تھکا دینے والا کام ہے لیکن پھر بھی رات اپنے گھر والوں کے ساتھ گزار کے ہی سکون ملتا ہے۔
خیال رہے کہ پنجاب کانسٹیبلری بنیادی طور پولیس کی ریزرو فورس ہے اور صوبے بھر سے اضافی نفری کو ’پی سی‘ میں رکھا جاتا ہے۔ کچے کے علاقے میں حال ہی میں مارے گئے پولیس اہلکار بھی پنجاب کانسٹیبلری سے ہی تعلق رکھتے تھے۔
موٹرویز اور جی ٹی روڑ پر لفٹ لے کر اپنے گھروں کو جانے والے سب سے زیادہ جوان ’پی سی‘ کے ہی ہوتے ہیں، دوسرے نمبر پر پنجاب ہائی وے پیٹرولنگ (پی ایچ پی) کے جوان آتے ہیں۔
پنجاب کی شاہراہوں پر 250 سے زائد پیٹرولنگ چیک پوسٹس اُس وقت کے وزیراعلٰی چوہدری پرویز الٰہی کے پہلے دور حکومت یعنی پرویز مشرف کی حکومت میں قائم کی گئی تھیں۔
پنجاب کانسٹیبلری’اکثر جب اہلکاروں کو سزا کے طور پر دور دراز کے علاقوں میں موجود چوکیوں پر بھیجا جاتا ہے تو پھر وہ ہر ہفتے ایسے ہی لفٹ لے کر اپنے گھروں کو پہنچتے ہیں۔‘
راشد علی کہتے ہیں کہ ’ ہمیں جتنی تنخواہ ملتی ہے اس میں کرایہ ادا کر کے سفر کرنا تو تقریباً ناممکن ہے۔ جی ٹی روڑ پر زیادہ تر پی ایچ پی کے جوان ہی لفٹ لے رہے ہوتے ہیں۔‘
انہوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے بتایا کہ موجودہ پابندی کی اصل وجہ لاہور کے رنگ روڑ پر پیش آنے والا ایک واقعہ ہے جس میں پی ایچ پی کے ایک نوجوان کی جان چلی گئی۔
’ہوا کچھ یوں کہ پی ایچ پی کے ایک نوجوان نے لفٹ لینے کے لیے ایک ٹرک کو اشارہ کیا تو ڈرائیور نے روکنے کے بجائے ٹرک اُس کے اُوپر چڑھا دیا جس سے اہلکار شدید زخمی ہو گیا۔‘
اسسٹنٹ سب انسپکٹر کا کہنا ہے کہ اس کے بعد صوبے بھر کی سڑکوں پر پی ایچ پی اور پی سی کے اہلکاروں پر روزانہ لفٹ لے کر گھروں کو جانے پر پابندی عائد کر دی گئی۔
سیف سٹی کے کیمروں کی فوٹیج میں دیکھا جا سکتا ہے کہ بیدیاں کے قریب رنگ روڑ پر یونیفارم میں ملبوس دو افراد نے ایک ٹرک سے لفٹ لینے کی کوشش کی، تاہم ڈرائیور ٹرک اُن کے اوپر سے گزار کر لے گیا۔
دو جوانوں میں سے ایک پی ایچ پی جبکہ دوسرا لاہور کے ایلیٹ پولیس ٹریننگ سینٹر کا اہلکار تھا۔ دونوں دفاتر لاہور کے بیدیاں روڑ پر واقع ہیں۔
جتنے بھی پولیس اہلکاروں سے بات کی گئی ان کا یہ ہی کہنا تھا کہ لفٹ لینے پر پابندی عائد کرنے کے ساتھ ساتھ ڈیوٹی کے دوران پیش آنے والے ہمارے مسائل پر بھی توجہ دی جانی چاہیے۔
پولیس اہلکاروں پر لفٹ لینے کی پابندی سے متعلق پی ایچ پی کے ایڈیشنل آئی جی راؤ عبدالکریم اور ڈی آئی جی اطہر وحید سے رابطہ کیا گیا، تاہم وہ کسی بھی سوال کا جواب دینے کے لیے دستیاب نہیں تھے۔