کیا پنجاب میں پولیس ’سیاسی مداخلت‘ کی نذر ہو رہی ہے؟
کیا پنجاب میں پولیس ’سیاسی مداخلت‘ کی نذر ہو رہی ہے؟
جمعرات 24 نومبر 2022 8:02
رائے شاہنواز -اردو نیوز، لاہور
پنجاب حکومت نے ڈی پی او لیہ شازیہ سرور کو ہٹا کر او ایس ڈی بنا دیا تھا۔ (فوٹو: پنجاب پولیس)
پاکستان میں جاری سیاسی بحران سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والا صوبہ پنجاب سمجھا جا رہا ہے۔ آج کے دن بھی صوبے میں نہ تو مستقل چیف سیکریٹری ہیں اور نہ ہی پولیس کے آئی جی۔
یہ دونوں تعیناتیاں چونکہ وفاقی حکومت کی مرضی سے کی جاتی ہیں اس لیے پنجاب میں تحریک انصاف کی حکومت ہونے کی وجہ سے یہ معاملہ پیچیدہ تر ہوتا جا رہا ہے۔
ایسا نہیں ہے کہ وفاق پنجاب حکومت کی درخواست پر ان سیٹوں پر نئے افسران تعینات نہیں کر رہا بلکہ صورتحال یہ ہے کہ پہلے سے موجود چیف سیکریٹری اور آئی جی نے تحریک انصاف کی حکومت کے ساتھ کام کرنے سے انکار کر رکھا ہے۔ جس کے نتیجے میں یہ عہدے عارضی افسروں کے پاس ہیں۔
آئی جی پنجاب فیصل شاہکار عمران خان پر فائرنگ کے مقدمے سے لے کر آج کے دن تک چھٹی پر ہیں۔ انہوں نے وفاقی حکومت کو تحریری طور پر کہا کہ وہ کام نہیں کرنا چاہتے تاہم ان کی خدمات واپس نہیں لی گئیں۔
حال ہی میں ڈی پی او لیہ شازیہ سرور کے تبادلے پر بھی پولیس اور پنجاب حکومت میں ٹھن گئی۔ وزیراعلٰی نے ان کے تبادلے کے احکامات جاری کیے تو پولیس اسٹیبلشمنٹ نے انہیں چارج چھوڑنے سے روک دیا۔
بعد ازاں معاملہ زیادہ بڑھنے پر انہیں چارج چھوڑنا پڑا۔ ان کو تین مہینے پہلے ہی تعینات کیا گیا تھا۔
اس سے ملتا جلتا معاملہ صوبائی دارالحکومت لاہور کا بھی ہے جہاں تعینات سی سی پی اور غلام محمد ڈوگر جن کی خدمات وفاقی حکومت نے واپس لے لی ہیں اور انہیں معطل بھی کر رکھا ہے لیکن وہ اب بھی اپنے فرائض سر انجام دے رہے ہیں۔
پنجاب پولیس کے ایک اعلٰی افسر نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اردو نیوز کے ساتھ محکمہ پولیس میں جاری کشمکش پر بات چیت کی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ پنجاب میں گزشتہ چار سالوں میں پولیس میں اتنے تقرر اور تبادلے ہوئے ہیں کہ افسران اس صورتحال سے عاجز آ چکے ہیں۔
’موجودہ آئی جی پنجاب فیصل شاہکار نے وزیراعلٰی پنجاب پرویز الٰہی سے ایک ملاقات میں جب یہ کہا کہ جن اضلاع میں آپ کی سیاسی دلچسپی نہیں ہے کم از کم وہاں انہیں مرضی کے افسران لگانے دیے جائیں تو وزیراعلٰی نے برجستہ کہا کہ آپ پھر کشمور میں لگا لیں وہاں میری دلچسپی نہیں ہے۔‘
اعلٰی افسر نے مزید بتایا کہ ’آئی جی پنجاب کی حکومت سے دوری محض عمران خان پر ایف آئی آر کے اندارج کے معاملے پر نہیں ہوئی بلکہ اس سے پہلے ہی معاملات خراب ہیں۔ آئی جی پنجاب حد سے زیادہ سیاسی مداخلت کے خلاف ہیں۔ اور وہ اس حکومت کے ساتھ کام نہیں کرنا چاہتے۔‘
بدھ کو سپریم کورٹ نے ایک مقدمے کی سماعت کی ہے جس میں پنجاب میں محکمہ پولیس کے اندر سیاسی مداخلت کو ختم کروانے کی استدعا کی گئی ہے۔ سماعت کے دوران سپریم کورٹ کے ججز نے پنجاب میں حکومت کا پولیس کی ٹرانسفر اور پوسٹنگ میں حد سے زیادہ اور غیر قانونی مداخلت پر حکومت سے جواب طلب کیا ہے۔
پولیس اسٹیبلشمنٹ نے گزشتہ چار سالوں میں ہونے والے سینکڑوں تبادلوں کے بعد حکومت کو تجویز دی ہے کہ اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے تبادلے کے بعد اس کی معیاد مختص کر دی جائے تاکہ آئے روز کا یہ مسئلہ حل ہو اور افسران کی تعیناتی کے بعد انہیں اس بات کا خدشہ نہ رہے کہ ان کا تبادلہ کسی بھی وقت بغیر وجہ کے بھی ہو سکتا ہے۔
پولیس افسر نے بتایا کہ ’آئی پنجاب فیصل شاہکار نے یہ تجویز موجودہ وزیراعلٰی کو دی تو انہوں نے اسے بھی رد کر دیا۔ اور یہ سب کسی ایک سیاسی جماعت کے بارے میں نہیں ہے۔ گزشتہ چار سالوں میں پنجاب میں تین وزیراعلٰی آئے ہیں۔ اس سیاسی عدم استحکام نے محکمہ پولیس کو بری طرح متاثر کیا ہے۔‘
ترجمان پنجاب حکومت مسرت چیمہ نے البتہ ان خبروں کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ کچھ افسران خود اپنے آپ کو سیاسی کر رہے ہیں۔
’وزیراعلٰی صوبے کے چیف ایگزیکٹیو ہیں اگر ان کو اختیار نہیں ہوگا تو کس کو اختیار ہو گا؟ موجودہ آئی جی کے بارے میں تو حکومت خود دو بار وفاق کو لکھ چکی ہے کہ ان کو تبدیل کیا جائے کیونکہ وہ ایک اہل افسر نہیں ہیں۔ حکومت پولیس کو سیاسی نہیں کر رہی تاہم کچھ افسران اپنے آپ کو ضرور سیاسی کر رہے ہیں۔‘