سرکاری خرچ پر پی ایچ ڈی، بیرون ملک جانے والے 99 سکالرز غائب
سرکاری خرچ پر پی ایچ ڈی، بیرون ملک جانے والے 99 سکالرز غائب
جمعہ 6 ستمبر 2024 13:31
بشیر چوہدری، اردو نیوز۔ اسلام آباد
گذشتہ دس برسوں میں 3001 سکالرز کو پی ایچ ڈی کی تعلیم کے لیے بیرون ملک بھیجا گیا (فوٹو: اے پی پی)
پاکستان میں اعلیٰ تعلیم کے ذمہ دار ادارے ہائر ایجوکیشن کمیشن (ایچ ای سی) پاکستان کو بین الاقوامی سکالرشپ پروگراموں کے حوالے سے جہاں سنگین مالی مشکلات کا سامنا ہے وہیں سرکاری خرچ پر بیرون ملک جانے والے سکالرز کی وطن واپسی نہ ہونے کی وجہ سے عالمی سطح پر پشیمانی کا بھی سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
گذشتہ 10 برس میں بیرون ملک جانے والے تین ہزار پی ایچ ڈی سکالرز میں سے 99 وطن واپسی کے بجائے بیرون ملک ہی رہ گئے ہیں۔ ان میں سے اکثریت نے معاہدے کے تحت سکالرشپ کی رقم بھی واپس سرکاری خزانے میں جمع نہیں کروائی۔
سینیٹ آف پاکستان میں وقفہ سوالات کے دوران وزارت تعلیم کی جانب سے تحریری طور پر بتایا گیا ہے کہ ہنگری کی حکومت کے ساتھ دوطرفہ معاہدے کے تحت 2016 سے 2024 کے درمیان 749 طلبہ کو بی ایس سکالرشپس دی گئیں۔ جن میں سے 149 نے اپنی تعلیم مکمل کر لی ہے۔ تاہم 600 طلبہ ابھی تک بیرون ملک ہیں اور اپنی تعلیم مکمل کر رہے ہیں۔
اس کے علاوہ گذشتہ دس برسوں میں 3001 سکالرز کو پی ایچ ڈی کی تعلیم کے لیے بیرون ملک بھیجا گیا، جن میں سے 1126 نے اپنی تعلیم مکمل کر لی اور پاکستان واپس آ گئے ہیں۔ تاہم 1810 سکالرز ابھی تک بیرون ملک تعلیم حاصل کر رہے ہیں، اور 65 طلبہ اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد واپس نہیں آئے۔ جس سے ایچ ای سی میں ان سکالرز کے معاہدوں پر عمل درآمد کے حوالے سے تشویش پیدا ہو گئی ہے۔
پی ایچ ڈی کے طلبہ سے متعلق درپیش چیلنجوں کے علاوہ، فیکلٹی ڈیویلپمنٹ پروگرام کے تحت مختلف سکالرشپ منصوبے ایچ ای سی کے پبلک سیکٹر ڈیویلپمنٹ پروگرام (پی ایس ڈی پی) کے ذریعے چلائے جا رہے ہیں۔ اس پروگرام کے تحت گذشتہ پانچ برسوں میں 185 سکالرز اپنی پی ایچ ڈی مکمل کرنے کے بعد پاکستان واپس آئے، جبکہ 144 سکالرز ابھی تک بیرون ملک اپنی پی ایچ ڈی کی تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔
قابل ذکر بات یہ ہے کہ اس سکالرشپ کے تحت جانے والوں میں سے بھی 34 سکالرز واپس نہیں آئے۔ جن میں پنجاب سے 14، وفاق سے 13، سندھ سے 4، خیبر پختونخوا سے 2، اور بلوچستان سے ایک سکالر شامل ہیں۔
ایچ ای سی کے مطابق اس وجہ سے غیرملکی یونیورسٹیوں میں پاکستانی سکالرز کے لیے جگہ حاصل کرنا مشکل بھی ہو گیا ہے۔ یہ صورتحال کووڈ 19 وبا کی وجہ سے مزید سنگین ہو گئی ہے جس نے 2020 اور 2021 میں طلبہ کی تعلیمی سرگرمیوں کو متاثر کیا۔ کئی ممالک میں داخلے بند کر دیے گئے، اور سفری پابندیاں نافذ کی گئیں۔ جس کی وجہ سے لیب کی بندش اور ڈیٹا کی عدم دستیابی کے باعث طلبہ اپنی تعلیم مکمل نہیں کر سکے۔
اس کے علاوہ ایچ ای سی کو مالی بحران کا سامنا ہے۔ خاص طور پر فارن ایکسچینج کی کمی ہے جو شراکت دار یونیورسٹیوں کو ٹیوشن فیس اور وظیفے کی ادائیگی کے لیے درکار ہے۔ اس کمی کے باعث ایچ ای سی نے نئے سکالرز کو بیرون ملک بھیجنا عارضی طور پر روک دیا ہے، جس سے پہلے سے پیچیدہ صورتحال میں مزید اضافہ ہو گیا ہے۔
وزارت تعلیم نے بتایا ہے کہ بیرون ملک جانے سے پہلے ہر سکالر کو ایچ ای سی کے ساتھ ایک معاہدے پر دستخط کرنا ہوتے ہیں، جس میں وہ اس بات کا عہد کرتا ہے کہ وہ پاکستان واپس آئے گا اور کم از کم پانچ سال تک یہاں کام کرے گا۔
تاہم ایسے سکالرز کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے جو معاہدے کی خلاف ورزی کر کے واپس نہیں آتے۔ ایچ ای سی ایسے معاملات کو سنبھالنے کے لیے ایک سخت طریقہ کار پر عمل کرتی ہے، جس میں ہر ڈیفالٹر سکالر کا کیس نیشنل سکالرشپ مینجمنٹ کمیٹی (این ایس ایم سی) کے سامنے پیش کیا جاتا ہے تاکہ فیصلہ کیا جا سکے۔
این ایس ایم سی سکالرشپ کے کل اخراجات اور عائد کردہ جرمانہ غیرملکی کرنسی میں وصول کرتا ہے۔ اگر رقم کی وصولی میں ناکامی ہو تو معاہدے کی خلاف ورزی کرنے والے سکالر کے خلاف قانونی مقدمہ دائر کیا جاتا ہے۔ اب تک ایچ ای سی ڈیفالٹر سکالرز سے 113.20 ملین روپے کی رقم وصول کر چکا ہے، جبکہ کئی مقدمات ابھی عدالت میں زیر التوا ہیں۔