’علم و عشق کے لیے عمر کی حد نہیں‘، 91 سالہ پی ایچ ڈی
’علم و عشق کے لیے عمر کی حد نہیں‘، 91 سالہ پی ایچ ڈی
بدھ 22 جون 2022 5:16
زین الدین احمد، خرم شہزاد، اردو نیوز
حنیف چوہدری کی اہلیہ 22 سال پہلے انتقال کر گئی تھیں (فوٹو: اردو نیوز)
کان میں سننے والا آلہ، آلے کے اوپر ہاتھ، پھر بھی سننے میں مشکل۔ بولنا شروع کریں تو علم کے دریا بہتے ہیں، یوں لگتا ہے جیسے صدیوں کی تاریخ کی فلم سامنے چل رہی ہو۔
کمرے میں کتابوں اور اخبارات کے ڈھیر ہیں، یا پھر کاغذ اور قلم کے، یا اسناد اور شیلڈز کے۔
یہ ملتان میں ایک متوسط طبقے کے علاقے میں ایک گھر اور اس کے سربراہ محمد حنیف چوہدری کے کمرے کا ماحول ہے۔
سفید داڑھی، سفید لباس اور سفید پگڑی میں ملبوس محمد حنیف چوہدری کی عمر 91 سال ہے، اور انہوں نے حال ہی میں اپنی مادری زبان پنجابی میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی ہے۔
جب سے ان کو ڈگری ملی ہے، ملتان، گرد ونواح اور پورے پاکستان میں ان کے عزم کے چرچے ہیں اور ہر کوئی ان سے یہ پوچھ رہا ہے کہ اس عمر میں انہیں اتنی محنت کر کے پی ایچ ڈی کرنے کا خیال کیسے آیا۔
اس کا وہ بہت مدلل جواب دیتے ہیں: ’علم اور عشق عمر کی حدیں مقرر نہیں کرتے۔ مجھے کتاب سے عشق ہے میں جب تک پڑھ نہ لوں مجھے صبر نہیں آتا۔‘
محمد حنیف چوہدری اب تک 33 کے قریب کتابیں لکھ چکے ہیں اور 34 ویں کتاب ملتان میں گزری پچھلی صدی پر تحریر کر رہے ہیں۔
’ایک صدی کا ملتان‘ کے عنوان سے چھپنے والی اس کتاب میں سال 1900 سے سال 2000 تک ملتان میں ہونے والے واقعات کی تفصیل ہو گی اور اس شہر کے بڑھنے، ترقی کرنے اور گنجان آباد ہونے کے احوال ہوں گے۔
حنیف قریشی نے اردو نیوز کو ایک گفتگو میں بتایا کہ پڑھنے اور لکھنے کا شوق انہیں اس عمر میں پی ایچ ڈی تک لے آیا۔ لیکن اب انہیں لگتا ہے کہ جیسے یہ کر کے بھی پچھتاوا ہو۔
وہ کہتے ہیں ’اب یہ پچھتاوے کے علاوہ اورکچھ نہیں ہے، پچھتاوا، مجھے پی ایچ ڈی نہیں کرنا چاہیے تھی۔ میں نے ایسا کیوں کیا، جب میں اس سے فائدہ نہیں لے سکتا۔‘
انہوں نے بتایا کہ جب وہ ڈاکٹریٹ کے امتحان پاس کرنے کے مرحلے سے گزر رہے تھے تو محکمہ تعلیم کے افسران نے انہیں کہا کہ انہوں نے اس سطح تک آنے میں بہت دیر کر دی ہے۔
’ہائیر ایجوکیشن کمیشن کے چیئرمین نے مجھے کہا تھا کہ آپ جوانی میں (پی ایچ ڈی) کرتے تو کسی جگہ پرنسپل ہوتے، وائس چانسلر ہوتے، کہیں فارن سروس میں ہوتے، آپ نے یہ بڑھاپے میں جا کے کیوں کیا۔‘
حنیف چوہدری بتاتے ہیں کہ ’جب میرا وائیوا ہو رہا تھا پی ایچ ڈی کا تو ہائیر ایجوکیشن کمیشن کے چیئرمین نے مجھ سے پوچھا بابا جی آپ کا ایک پاوں تو قبر میں ہے، دوسرا باہر ہے، آپ نے بڑھاپے میں پی ایچ ڈی کر کے کیا کیا، کیا چاہتے ہیں آپ؟‘
اس پر انہوں نے ہائیر ایجوکیشن کے سربراہ کو بتایا کہ علم کے حصول اور عشق کے لیے عمر کی کوئی قید نہیں ہوتی اور پڑھائی سے عشق انہیں اس منزل تک لے آیا۔
پنجابی زبان کو پی ایچ ڈی کے لیے منتخب کرنے کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں حنیف چوہدری نے کہا کہ ’پنجابی میری مادری زبان ہے، جو بات آپ اپنی مادری زبان میں اپنے مافی الضمیر کے مطابق بتا سکتے ہیں، وہ آپ دوسری زبان میں نہیں کر سکتے۔‘
حنیف چوہدری کی اہلیہ 22 سال پہلے انتقال کر گئی تھیں۔ اب وہ اپنے بیٹوں اور پوتے پوتیوں کے ساتھ رہتے ہیں۔ جو ان کی پڑھائی، لکھائی میں ان کی مدد کرتے ہیں۔
انہوں نے 1947 میں میٹرک کیا اور اس کے بعد سے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ ساری زندگی تعلیم سے رشتہ قائم رکھا اور کتاب سے رخصت نہیں لی۔
وہ کہتے ہیں کہ ’میں نے بہت سی کتابیں ایسی پڑھی ہیں جو (Relevant) ہی نہیں تھیں۔‘