Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

یونیورسٹیوں میں پی ایچ ڈی پروگرامز کیوں بند ہو رہے ہیں؟

ایچ ای سی کی رپورٹ کے مطابق 869 میں سے641 پروگرام ایچ ای سی کے وضع کردہ قواعد و ضوابط اور معیار پر پورا اُترے تھے (فوٹو: ایچ ای سی فیس بک)
ہائر ایجوکیشن کمیشن کی رپورٹ میں انکشاف ہوا ہے کہ ملک بھر کی بڑی سرکاری اور نجی جامعات میں پی ایچ ڈی اساتذہ کی اسامیاں خالی پڑی ہیں، جس کے باعث 228 پی ایچ ڈی پروگرام بند کر دیے گئے ہیں۔
دوسری جانب چار ہزار سے زائد پی ایچ ڈی سکالرز بے روزگار ہیں جبکہ ایچ ای سی کی جانب سے بے روزگار پی ایچ ڈی سکالرز کو ملازمتیں فراہم کرنے کے لیے قائم پورٹل پر صرف 642 افراد نے خود کو رجسٹرڈ کیا ہے۔
ان میں سے 358 فریش پی ایچ ڈی ہولڈرز کو ایک سال کے لیے ہائر ایجوکیشن کمیشن نے انٹیرم پلیسمنٹ آف فریش پی ایچ ڈیز کے تحت ملازمتیں دی گئیں۔
اردو نیوز کو دستیاب ہائر ایجوکیشن کمیشن کی دستاویزات کے مطابق ہائر ایجوکیشن کمیشن آف پاکستان کو ملک بھر کی 119 یونیورسٹیوں کے 869 پروگراموں میں سے 228 پروگرام پی ایچ ڈی کے لیے مطلوبہ معیار کے اساتذہ کی تعداد کم ہونے کی وجہ سے بند کرنا پڑے ہیں۔
ایچ ای سی کے مطابق پاکستان میں کسی بھی نجی یا سرکاری یونیورسٹی میں پی ایچ ڈی پروگرام شروع کرنے کے لیے جو قواعد و ضوابط اور معیار وضع کیے گئے ہیں اس کے تحت متعلقہ مضمون میں ڈیپارٹمنٹ میں تین کُل وقتی پی ایچ ڈی اساتذہ کا ہونا لازمی ہے جبکہ ایک استاد ایک وقت میں صرف پانچ طالب علموں کو سپروائز کر سکتا ہے۔
اس پالیسی پر عمل درآمد کا جائزہ لینے کے لیے ہائر ایجوکیشن کمیشن نے سال 2021 میں خصوصی مانیٹرنگ ٹیمیں تشکیل دیں۔ ان ٹیموں نے ملک بھر کی 119 یونیورسٹیوں کے 869 پی ایچ ڈی پروگراموں کا جائزہ لیا جن میں 68 سرکاری اور 51 غیر سرکاری جامعات شامل تھیں۔
ایچ ای سی کی رپورٹ کے مطابق 869 میں سے641 پروگرام ایچ ای سی کے وضع کردہ قواعد و ضوابط اور معیار پر پورا اُترے تھے جبکہ 228 پروگراموں میں اساتذہ اور طلبہ کا تناسب پورا نہیں تھا جبکہ دیگر معیار پر بھی پورا نہیں اترتے اسی وجہ سے انھیں بند کر دیا گیا۔

ہائر ایجوکیشن کمیشن نے خصوصی مانیٹرنگ ٹیمیں تشکیل دیں، جنہوں نے 869 پی ایچ ڈی پروگراموں کا جائزہ لیا (فوٹو: ہائر ایجوکیشن کمیشن)

رپورٹ کے مطابق پنجاب یونیورسٹی لاہور کو مجموعی طور پر اپنے پی ایچ ڈی پروگراموں کے لیے 953 پی ایچ ڈی اساتذہ کی ضرورت ہے لیکن یونیورسٹی میں اس وقت 662 اساتذہ موجود ہیں اور 291 اساتذہ کی کمی کا سامنا ہے۔
 گورنمنٹ کالج یونیورسٹی برائے خواتین فیصل آباد کو اپنے متعدد پی ایچ ڈی پروگراموں کے لیے مجموعی طور پر 428 پی ایچ ڈی اساتذہ کی ضرورت ہے جبکہ یونیورسٹی کے پاس اس وقت صرف 224 اساتذہ موجود ہیں۔
اس طرح یونیورسٹی کو 204 پی ایچ ڈی اساتذہ کی کمی کا سامنا ہے۔
یونیورسٹی آف بلوچستان میں پی ایچ ڈی کے لیے 324 پی ایچ ڈی اساتذہ کی آسامیاں مختص کی گئی ہیں 168 خالی پڑی ہیں جبکہ 156 پی ایچ ڈی اساتذہ یونیورسٹی میں خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔
گورنمنٹ کالج یونیورسٹی برائے خواتین کو اپنے سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے پی ایچ ڈی پروگراموں کے لیے 119 آسامیوں میں سے صرف 20 موجود ہیں جبکہ 99 پی ایچ ڈی اساتذہ کی کمی ہے۔

رپورٹ کے مطابق پنجاب یونیورسٹی کو  291 اساتذہ کی کمی کا سامنا ہے (فوٹو: پنجاب یونیورسٹی ویب سائٹ)

ڈاؤ یونیورسٹی سندھ میں پی ایچ ڈی پروگراموں کے لیے مجموعی طور پر 244 پی ایچ ڈی اساتذہ کی ضرورت ہے تاہم یونیورسٹی کے پاس صرف 110 پی ایچ ڈی اساتذہ موجود ہیں اور یونیورسٹی کو 134 اساتذہ کی کمی کا سامنا ہے۔
ڈاؤ یونیورسٹی کے صرف میڈیکل سائنسز کے شعبہ میں پی ایچ ڈی پروگراموں کے لیے 208 اساتذہ کی ضرورت ہے جبکہ یونیورسٹی کے پاس صرف 96 پی ایچ ڈی اساتذہ موجود ہیں جبکہ 112 اساتذہ کی کمی ہے۔
فیڈرل اردو یونیورسٹی سندھ میں مختلف پروگراموں کے لیے 288 اساتذہ کی کل اسامیاں ہیں جن میں سے 121 اساتذہ کی آسامیاں خالی ہیں جبکہ یونیورسٹی کے پاس 167 پی ایچ ڈی موجود ہیں۔
غازی یونیورسٹی ڈیرہ غازی خان کے متعدد پی ایچ ڈی پروگراموں کے لیے 189 پی ایچ ڈی اساتذہ کی ضرورت ہے جبکہ یونیورسٹی کے صرف 51 پی ایچ ڈی اساتذہ موجود ہیں اور 138 اساتذہ کی قلت ہے۔
یونیورسٹی کے آرٹس اینڈ ہیومنٹی ڈیپارٹمنٹ کے لیے 52 اساتذہ درکار ہیں جبکہ یونیورسٹی کے صرف آٹھ استاد موجود ہیں۔
اسی طرح بنیادی سائنس کے شعبہ کے لیے 61 اساتذہ کی ضرورت ہے جبکہ ادارے کے پاس صرف نو اساتذہ موجود ہیں اور 52 کی کی کمی ہے۔

جناح میڈیکل یونیورسٹی میں 100 پی ایچ ڈی اساتذہ کی آسامیوں میں سے 71 خالی ہیں (فوٹو: اے ایف پی)

جناح میڈیکل یونیورسٹی میں 100 پی ایچ ڈی اساتذہ کی آسامیوں میں سے 71 خالی ہیں۔
 ایبٹ آباد یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کو مختلف پی ایچ ڈی پروگراموں کے لیے 145 پی ایچ ڈی اساتذہ کی ضرورت ہے لیکن یونیورسٹی کے پاس صرف 57 پی ایچ ڈی موجود ہیں جبکہ 88 آسامیاں خالی پڑی ہیں۔
علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی میں 37 پی ایچ ڈی اساتذہ کی کمی ہے جبکہ باچا خان یونیورسٹی کے مختلف پروگراموں کے لیے 60 پی ایچ ڈی اساتذہ کی آسامیاں خالی ہیں۔
پی مہر علی شاہ بارانی یونیورسٹی پی ایچ ڈی پروگراموں کے لیے کُل 205 آسامیاں مختص ہیں جن میں سے 121 پی ایچ ڈی اساتذہ موجود ہیں جبکہ 84 کی قلت کا سامنا ہے۔
گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور کو بھی مجموعی طور پر 55 پی ایچ ڈی اساتذہ کی کمی کا سامنا ہے۔
ایچ ای سی کا کہنا ہے کہ جن یونیورسٹیوں کے پاس متعلقہ شعبوں میں مطلوبہ تعداد اور معیار کے مطابق اساتذہ موجود نہیں ہیں ان کے پی ایچ ڈی پروگرام بند کر دیے گئے ہیں۔

پی ایچ ڈی ایسوسی ایشن کے مطابق ایچ ای سی صرف ان پی ایچ ڈی سکالرز کو ایک سال کے لیے ملازمت فراہم کرتا ہے (فوٹو: پنجاب یونیورسٹی ویب سائٹ)

پی ایچ ڈی ایسوسی ایشن کے مطابق ایچ ای سی صرف ان پی ایچ ڈی سکالرز کو ایک سال کے لیے ملازمت فراہم کرتا ہے جنھوں نے پی ایچ ڈی تازہ تازہ مکمل کی ہو جبکہ اس وقت بھی ملک میں چار ہزار سے زائد ایسے افراد موجود ہیں جنھوں نے سال 2009 سے 2019 کے درمیان پی ایچ ڈی کے بعد بھی ایک ایک سال کا مینٹورشپ پروگرام مکمل کیا لیکن وہ تاحال بے روزگار ہیں۔
ایچ ای سی کا موقف ہے کہ مینٹوشپ پروگرام کا بنیادی مقصد ہی ملازمت کے مواقع تلاش کرنے میں مدد فراہم کرنا تھا۔ اس وقت بھی ایچ ای سی نے اپنے پی ایچ ڈی ڈیٹا بینک کی بنیاد پر روزی ڈاٹ پی کی کے ساتھ معاہد کیا ہے تاکہ اس میں موجود پی ایچ ڈی خواتین و حضرات کو ملازمتوں کے مواقع فراہم کیے جا سکیں۔
ایچ ای سی کی انھوں کوششوں کی وجہ سے پاکستان کی جامعات میں پی ایچ ڈی اساتذہ کا تناسب 20 فیصد سے بڑھ کر 32 فیصد ہوگیا ہے۔
خیال رہے کہ اس وقت بھی کئی ایک جامعات ایسی ہیں جن کے پاس پی ایچ ڈی پروگراموں کے لیے اساتذہ سرپلس میں موجود ہیں۔ جن یونیورسٹیوں کے پاس سرپلس میں اساتذہ موجود ہیں ان میں کامیسٹس اسلام آباد، نیشنل یونیورسٹی آف ماڈرن لینگویجز اسلام آباد، اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور، ولی خان یونیورسٹی مردان، آغا خان یونیورسٹی کراچی، ایئر یونیورسٹی اسلام آباد، بحریہ یونیورسٹی اسلام آباد اور بلوچستان یونیورسٹی آف ٹیکنالوجی شامل ہیں۔

شیئر: