گرفتار ارکان قومی اسمبلی کو فوری رہا کیا جائے: سپیکر ایاز صادق
سپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق نے آئی جی اسلام آباد کو فوری طور پر گرفتار ارکان اسمبلی کی رہائی کا حکم دیا ہے۔
سپیکر قومی اسمبلی کے طلب کرنے پر آئی جی اسلام آباد علی ناصر رضوی ان کے چیمبر پہنچے۔ ایاز صادق نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’میں اس واقعے پر بہت رنجیدہ ہوں نہ آپ پارلیمنٹ ہاؤس سے کسی کو گرفتار کر سکتے ہیں نہ پارلیمنٹ لاجز سے۔‘
انہوں نے آئی جی اسلام آباد کو ہدایت جاری کرتے ہوئے کہا کہ تمام ممبران کے پروڈکشن آرڈر جاری کر رہا ہوں۔ جو ممبران رہا ہو سکتے ہیں قانون کے مطابق ان کو فوراً رہا کیا جائے۔
ایاز صادق نے ارکان اسمبلی کی گرفتاری کے حوالے سے آئی جی اسلام آباد سے رپورٹ بھی طلب کر لی ہے۔
قبل ازیں سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق کا کہنا تھا کہ کل پارلیمنٹ میں جو واقعہ ہوا اس پر خاموش نہیں رہیں گے، ایکشن لیں گے۔
انہوں نے پارلیمنٹ سے ہونے والی گرفتاریوں پر آئی جی اسلام آباد اور ایسں ایس پی آپریشنز کو فوری طلب کیا تھا۔
منگل کو قومی اسمبلی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے سپیکر ایاز صادق نے کہا کہ ’تمام گیٹس اور پارلیمنٹ کے اندر کی فوٹیج طلب کر رہا ہوں۔ 2014 میں ایک سیاسی رہنما اور ان کے سیاسی کزن نے پارلیمنٹ پر حملہ کیا تھا، وہ پہلا حملہ تھا پارلیمنٹ پر پھر پارلیمنٹ لاجز میں صلاح الدین ایوبی کے گھر پر حملہ ہوا۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’میں نے 2014 میں بھی حملہ کرنے والوں کے خلاف ایف آئی آر کٹوائی تھی۔ آج بھی کٹوانا پڑی تو کٹواؤں گا۔‘
دوسری جانب پاکستان کے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں گزشتہ شب ہونے والی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنماؤں کی گرفتاریوں کے بعد شہر میں سکیورٹی مزید سخت کر دی گئی ہے۔
پی ٹی آئی کی طرف سے اُردو نیوز کو فراہم کی گئی ایک فہرست کے مطابق اب تک 11 رہنماؤں کو گرفتار کیا جا چکا ہے اور توقع ہے کہ انہیں آج ضلعی عدالتوں میں پیش کیا جائے گا۔
اسلام آباد پولیس نے پیر کی شب پاکستان تحریک انصاف کے متعدد رہنماؤں کو اتوار کے روز وفاقی دارالحکومت کے نواح میں ہونے والے جلسے میں طے شدہ معاہدے کی خلاف ورزی کرنے پر گرفتار کیا تھا۔
پی ٹی آئی کی طرف سے اُردو نیوز کو فراہم کی گئی ایک فہرست کے مطابق جن 11 رہنماؤں کو گرفتار کیا گیا ہے اُن میں پارٹی کے چیئرمین بیرسٹر گوہر علی خان، شیر افضل خان مروت، شیخ وقاص اکرم، ملک عامر ڈوگر، مخدوم زین قریشی، احمد چٹھہ، سید احد شاہ، شعیب شاہین، سید نسیم شاہ، زبیر خان اور ایک خیبر پختونخواہ کے رکن قومی اسمبلی بھی شامل ہیں۔
پولیس نے پیر کی شب تین رہنماؤں کی گرفتاری کی تصدیق کی تھی تاہم پی ٹی آئی کا دعوٰی ہے کہ دیگر رہنماؤں کو رات گئے گرفتار کیا گیا ہے اور اس کے لیے مختلف تھانوں کے اہلکاروں نے کارروائی کی ہے۔
دوسری جانب تحریک انصاف کے رہنما علی محمد خان نے منگل کو قومی اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ان کے ساتھیوں کی گرفتاری ان کی جماعت یا عمران خان پر نہیں بلکہ پارلیمنٹ پر حملہ ہے۔
انہوں نے کہا ہے کہ ’کل رات جو کچھ ہوا وہ پاکستان کی جمہوریت کا نو مئی تھا۔ آرٹیکل چھ لگانا ہے تو پارلیمنٹ پر دھاوا بولنے والوں پر لگائیں۔‘
سابق سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے گزشتہ شب ایک ٹیلی وژن پروگرام میں کہا تھا کہ اراکین اسمبلی کی پارلیمنٹ کے باہر سے گرفتاری درحقیقت سپیکر اسمبلی کی کمزوری ہے۔
واضح رہے کہ پاکستان کے رائج قوانین کے مطابق کسی رکن قومی اسمبلی کی گرفتاری سپیکر اسمبلی کی اجازت کے بغیر نہیں ہو سکتی۔
لیکن پولیس نے گزشتہ شب کارروائی کرتے ہوئے پی ٹی آئی کے چیئرمین بیرسٹر گوہر علی خان کو اس وقت گرفتار کر لیا تھا جب وہ ملک عامر ڈوگر کے ساتھ پارلیمنٹ ہاؤس میں گاڑی میں بیٹھ کر خود باہر آئے تاہم پولیس نے ان کی گاڑی روک لی اور انہیں گرفتار کر لیا۔
چیئرمین پی ٹی آئی نے گرفتاری کے وقت میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’قانون کے مطابق گرفتاری دے رہا ہوں۔‘
قبل ازیں بیرسٹر گوہر نے پارلیمنٹ ہاؤس میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’تمام کارکنوں کو کہہ رہا ہوں، ہم نے قانون کو ہاتھ میں نہیں لینا، پرامن رہیں، اگر لیڈر جیل میں ہے تو ہمیں جیل جانے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ہمیں عدلیہ پر اعتماد ہے، ہم نے کوئی جرم نہیں کیا، یہ حکومت حواس باختہ ہو چکی ہے۔‘
اسلام آباد پولیس نے شیر افضل مروت کو پارلیمنٹ ہاؤس سے باہر جاتے ہوئے گرفتار کیا۔ اس دوران شیر افضل مروت کے سکیورٹی گارڈز اور پولیس کے درمیان ہاتھا پائی بھی ہوئی جس کے بعد پولیس شیر افضل مروت کو گریبان سے پکڑ کر اپنے ساتھ لے گئی۔
خیال رہے کہ پارلیمنٹ ہاؤس کے اندر بیرسٹرگوہر علی خان اور دیگر پی ٹی آئی ممبران کا گرفتاریوں سے بچنے کے لیے مشاورتی اجلاس بھی ہوا تھا۔ اس سلسلے میں پی ٹی آئی ممبران اسمبلی نے سپیکر قومی اسمبلی سے رابطے کی کوشش کی جس میں اُنہیں کامیابی نہیں ملی۔
اسلام آباد پولیس کے مطابق پی ٹی آئی رہنماؤں کو اتوار کو منعقدہ جلسے میں ’خلافِ ضابطہ اقدامات کرنے پر گرفتار کیا جا رہا ہے۔ پی ٹی آئی نے انتظامیہ کے ساتھ طے شدہ وقت کے اندر جلسہ ختم نہیں کیا جبکہ جلسے میں شرکت کے لیے آنے والے کارکنان نے ممنوعہ روٹ استعمال کیا۔‘
’کراچی میں پارٹی رہنماؤں کے گھروں پر چھاپے مارے گئے‘
دوسری جانب پی ٹی آئی نے الزام عائد کیا ہے کہ ان کے اسلام آباد جلسے کے بعد کراچی کے مختلف علاقوں میں پولیس نے ان کی پارٹی کے کئی رہنماؤں کے گھروں پر چھاپے مارے ہیں۔
پاکستان تحریک انصاف کے مطابق رات گئے پولیس نے رہنماؤں کی گرفتاری کے لیے ان کے گھروں پر چھاپے مارے، جس سے پارٹی کے کارکنوں اور رہنماوں میں تشویش پائی جاتی ہے۔