Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

اسحاق ڈار کی آئی ایم ایف پر تنقید، جارحانہ حکمت عملی یا مایوسی کا اظہار؟

آئی ایم ایف کے ایگزیکٹو بورڈ کے ایک اور اجلاس کا کیلنڈر جاری کر دیا گیا ہے جس میں ایک بار پھر پاکستان کو شامل نہیں کیا گیا ہے۔ (فائل فوٹو: روئٹرز)
پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان سٹاف لیول معاہدے کو ہوئے تو دو ماہ مکمل ہونے والے ہیں تاہم ابھی تک آئی ایم ایف ایگزیکٹو بورڈ نے پاکستان کے لیے 7 ارب ڈالر کے معاہدے کی پہلی قسط کی منظوری نہیں دی۔
وزارت خزانہ کے حکام آئی ایم ایف کی جانب سے ایگزیکٹو بورڈ اجلاس میں پاکستان کا نام شامل نہ کرنے کی تکنیکی وجوہات یعنی ایگزیکٹو بورڈ سے قبل کی شرائط پر عمل درآمد بتاتے ہیں مگر دوسری جانب نائب وزیراعظم و وزیر خارجہ اسحاق ڈار اس تاخیر کو کہیں نہ کہیں سیاسی پہلوؤں سے جوڑ رہے ہیں۔
ماہرین سمجھتے ہیں کہ اسحاق ڈار آئی ایم ایف کے ساتھ مالی پروگرامز کا خاصا تجربہ رکھتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ وہ مطالبات پورے ہونے کے باوجود پیشرفت نہ ہونے پر جارحانہ رویہ اختیار کر لیتے ہیں، تاہم اُن کی یہ حکمت عملی قرض مانگنے والوں کے لیے نقصان دہ بھی ثابت ہو سکتی ہے۔

’وہ چاہتے تھے پاکستان دیوالیہ ہو جائے‘

پاکستان کے نائب وزیراعظم و وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے آئی ایم ایف کی پیشگی شرائط پوری کرنے کے باوجود ایگزیکٹو بورڈ سے قسط کی عدم منظوری کے حوالے سے برطانیہ میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ تکنیکی جائزے کے مکمل ہونے کے بعد بھی اگر ایگزیکٹو بورڈ قسط کی منظوری نہ دے تو میں سوال کیوں نہ کروں؟
انہوں نے پی ڈی ایم دور میں آئی ایم ایف پروگرام کی تاخیر کا بھی تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ گذشتہ ڈھائی سال کے دوران پاکستان کے آئی ایم ایف کے ساتھ اہم مذاکرات کو سبوتاژ کرنے کی کوششیں کی گئیں۔
نائب وزیراعظم نے سوال اٹھایا کہ جب پاکستان دیوالیہ ہونے کے قریب تھا تو اس وقت جغرافیائی سیاست کیوں کی جا رہی تھی۔
’میری رائے میں وہ چاہتے تھے کہ پاکستان دیوالیہ ہو جائے۔ جب ہم معاشی کامیابی کی طرف بڑھتے ہیں تو ہماری ٹانگیں کھینچی جاتی ہیں۔ روایتی جنگیں ختم ہو چکی ہیں۔آئی ایم ایف پروگرام آٹھ ماہ تک تاخیر کا شکار رہا اور یہ کسی ملک کی معاشی زندگی میں ایک بڑا جرم ہے۔‘

وزارت خزانہ کا مؤقف

عالمی مالیاتی ادارے کے ایگزیکٹو بورڈ کے ایک اور اجلاس کا کیلنڈر جاری کر دیا گیا ہے جس میں ایک بار پھر پاکستان کو شامل نہیں کیا گیا ہے۔ آئی ایم ایف ایگزیکٹو بورڈ کا اجلاس 18 ستمبر کو ہوگا جس میں بورڈ سرینام کے سات ویں جائزے کی منظوری دے گا۔

اسحاق ڈار نے سوال اٹھایا کہ جب پاکستان دیوالیہ ہونے کے قریب تھا تو اس وقت جغرافیائی سیاست کیوں کی جا رہی تھی۔ (فائل فوٹو: روئٹرز)

آئی ایم ایف ایگزیکٹو بورڈ کے 9 اور 13 ستمبر کے اجلاسوں کا کیلنڈر جاری ہو چکا ہے۔ 9 ستمبر کے اجلاس میں بھوٹان کا کیس شامل تھا جبکہ 13 ستمبر کے اجلاس میں ناروے کا کیس شامل ہے۔
اس حوالے سے وزارت خزانہ کے اعلٰی حکام کا کہنا ہے کہ پاکستان کو تاحال دو ارب ڈالر بیرونی فنانسنگ گیپ کو پورا کرنے میں مشکلات کا سامنا ہے۔
حکام کے مطابق بیرونی فنانسنگ کی شرط پوری کرنے کے لیے پاکستان ایک ارب 75 کروڑ ڈالر کے کمرشل قرض کے لیے درخواست کر چکا ہے۔ پاکستان اسلامک ٹریڈ فنانس کارپوریشن سے 40 کروڑ ڈالر اور اسلامک ڈیولپمنٹ بینک سے 35 کروڑ ڈالر قرض کی درخواست بھی کر چکا ہے۔ دوست ممالک آئی ایم ایف کو پاکستان کے ساتھ مالی تعاون کی یقین دہانی کروا چکے ہیں تاہم اب آئی ایم ایف کو بیرونی فنانسنگ کا گیپ پورا ہونے کا انتظار ہے۔

’قرض مانگنے والوں کے پاس زیادہ آپشنز نہیں ہوتے‘

ماضی میں اسحاق ڈار کے ساتھ کام کرنے کا تجربہ رکھنے والے معیشت دان اشفاق تولہ کے خیال میں نائب وزیراعظم اسحاق ڈار اس وقت آئی ایم ایف کے حوالے سے حقیقت بیان کر رہے ہیں۔
اُنہوں نے اُردو نیوز کو بتایا کہ پاکستان اگر آئی ایم ایف کی تمام شرائط پوری کر چکا ہے تو پھر ایگزیکٹو بورڈ میں ہمارا کیس کیوں نہیں پہنچ رہا؟
اشفاق تولہ کے مطابق ’پاکستان کے آئی ایم ایف کے پروگرام میں رہتے ہوئے ہاتھ پاؤں بندھے ہوتے ہیں، آئی ایم ایف اپنے پروگرام میں ہوتے ہوئے بھی ہمیں ترجیح نہیں دیتا۔ اس صورتحال میں یہ واضح ہوتا ہے کہ پاکستان آئی ایم ایف کے ساتھ رہتے ہوئے معاشی ترقی نہیں کر سکتا۔‘

اشفاق تولہ کے خیال میں نائب وزیراعظم اسحاق ڈار اس وقت آئی ایم ایف کے حوالے سے حقیقت بیان کر رہے ہیں۔ (فائل فوٹو: روئٹرز)

اُنہوں نے مزید کہا کہ اسحاق ڈار نے سنہ 2013 سے 2016 تک کے دور میں بھی آئی ایم ایف کے ساتھ کام کیا ہے اور اُس دوران پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان مثالی اتفاق رائے پیدا ہوا تھا۔ یہ بات درست نہیں کہ اسحاق ڈار کو آئی ایم ایف پروگرام کی نوعیت کا علم نہیں بلکہ آئی ایم ایف کی ترجیحات اُنہیں جارحانہ مزاج اپنانے پر مجبور کرتی ہیں۔
تاہم معاشی امور کے سینیئر صحافی مہتاب حیدر کے مطابق ’قرض مانگنے والوں کے پاس زیادہ آپشنز نہیں ہوتے۔ اسحاق ڈار کے ایسے بیانات آئی ایم ایف پروگرام کو متاثر کر سکتے ہیں۔‘
اُن کا کہنا تھا کہ ’نائب وزیراعظم اسحاق ڈار کی جانب سے آئی ایم ایف کو لے کر سخت بیانات کا رجحان عالمی مالیاتی ادارے پر دباؤ ڈالنے کی کوشش ہے یا اُن کی مایوسی، اس بات پر وضاحت تو وہ خود ہی کر سکتے ہیں۔ لیکن اسحاق ڈار موجودہ حکومت کی معاشی پالیسیوں پر ضرور اثرانداز ہو رہے ہیں۔‘

شیئر: