Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سنگجانی جلسے کے بعد کے واقعات، ’تحریک انصاف کی مزید تشہیر ہوئی‘

وزیر اطلاعات عطااللہ تارڑ نے کہا کہ پارلیمنٹ کے اندر سے کسی کو حراست میں نہیں لیا گیا (فائل فوٹو: اے ایف پی)
جب پاکستان تحریک انصاف کا اسلام آباد کے مغرب میں واقع سنگجانی میں جلسہ آٹھ ستمبر کو ہونا طے پا چکا تو یہی لگتا تھا کہ سب کچھ نارمل طریقے سے ہو جائے گا اور پی ٹی آئی اس جلسے کے بعد معمول کی سیاست کی طرف بڑھ جائے گی۔
لیکن حکمراں جماعت مسلم لیگ ن نے جلسے سے پہلے اسلام آباد شہر اور اس کے نواح سے گزرنے والی قومی شاہراہوں  اور دیگر علاقوں سے آنے والے راستوں کو مکمل طور پر بند کرکے ناقدین کو تنقید کا موقع دیا اور اس کے ساتھ ہی جلسے سے قبل ہی مسلم لیگ ن کے رہنما پی ٹی آئی کے خلاف اشتعال انگیز بیانات جاری کرنے لگے۔
تب بھی یہ سمجھا جا رہا تھا کہ یہ اقدامات پی ٹی آئی کی طرف سے متوقع دھواں دار تقاریر کی پیش بندی ہے اور حکومتی ترجمان ’اوفینس از دا بیسٹ ڈیفنس‘  (حملہ بہترین دفاع ہے) کی حکمت عملی اپنائے ہوئے ہیں۔
لیکن جلسے میں جب خیبر پختونخوا کے وزیراعلٰی علی امین گنڈاپور نے فوج، صحافیوں اور پنجاب کی وزیراعلٰی مریم نواز شریف کے خلاف قابل اعتراض جملے بولے تو اس کے بعد وہ ہدف تنقید بن گئے اور ان کی تقریر پر ناپسندیدگی کا اظہار کیا گیا۔
ابھی ان کی تقریر کو 24 گھنٹے بھی نہیں گزرے تھے کہ پی ٹی آئی کے صف اول کے کئی رہنماؤں کے خلاف مقدمات درج کر کے ان کو گرفتار کر لیا گیا۔ پیر اور منگل کی درمیانی شب اس سے بھی ایک قدم آگے بڑھ کر کچھ سرکاری اہلکار پارلیمنٹ سے پی ٹی آئی کے ان رہنماؤں کو ساتھ لے گئے جو گرفتاری سے بچنے کے لیے وہاں پر موجود تھے۔
اس واقعے کے بعد توپوں کا رخ حکومت کی طرف ہو گیا اور ناقد علی امین گنڈاپور کی تقریر بھول کر پی ٹی آئی رہنماوں کی گرفتاری کے خلاف حکومت پر تنقید کرنا شروع ہو گئے۔ اس پر مستزاد علی امین گنڈاپور کے کئی گھنٹے غائب رہنے اور بعض حلقوں کی جانب سے یہ دعوٰی کہ پارلیمنٹ کے اندر سے پی ٹی آئی رہنماؤں کی گرفتاری پولیس کی بجائے کسی خفیہ ادارے کے ذریعے کی گئی، بھی حکومت کی مزید سبکی کا باعث بن رہا ہے۔
اگرچہ قومی اسمبلی کے سپیکر ایاز صادق نے اس واقعے کی پاداش میں ایوان کی سکیورٹی کے ذمہ دار سارجنٹ ایٹ آرمز کو معطل کر دیا ہے اور وفاقی وزیر برائے اطلاعات عطااللہ تارڑ نے بدھ کے روز اسمبلی میں اپنے خطاب کے دوران کہا ہے کہ پارلیمنٹ کی عمارت کے اندر سے کسی کو حراست میں نہیں لیا گیا لیکن اس کے باوجود حکومت اور اسٹیبلشمنٹ اس واقعے پر مسلسل تنقید کی زد میں ہیں۔
ایسے میں سوال جنم لے رہا ہے کہ آٹھ ستمبر کو پی ٹی آئی کے جلسے اور اس کے پس منظر اور پیش منظر ہونے والے واقعات کا فائدہ کس کو ہوا ہے اور نقصان کس کو؟
پارلیمنٹ کے اندر سے گرفتاریاں روایت بن جائیں گی
سینئر صحافی زاہد حسین کہتے ہیں کہ پارلیمنٹ ہاؤس کے اندر سے پی ٹی آئی رہنماوں کو حراست میں لینے کی کارروائی اب ایک روایت بن جائے گی اور اس کا نقصان مستقبل میں موجودہ حکومت کو بھی ہو گا۔
اردو نیوز سے گفتگو میں زاہد حسین کا کہنا تھا کہ آٹھ ستمبر سے پہلے جو امید پیدا ہوئی تھی کہ کچھ مفاہمت ہو سکتی ہے وہ اس کے بعد ہونے والے واقعات سے ختم ہو گئی ہے۔
نہ صرف یہ کہ اس سے محاذ آرائی بڑھی ہے بلکہ اس سے تحریک انصاف کی پوزیشن کی مزید تشہیر ہوئی ہے۔ اب پورے ایوان نے کہا ہے کہ یہ غلط ہوا ہے اور حکومت کو بھی اس معاملے کو سنبھالنا پڑ رہا ہے اور سپیکر کو کچھ اقدامات لے کر انہیں بچانا پڑا ہے۔
سپیکر کی اجازت کے بغیر اراکین قومی اسمبلی کی گرفتاری کیسے ممکن ہے؟
زاہد حسین نے سوالات اٹھائے کہ پارلیمینٹرینز کی گرفتاری حکومت کی اجازت کے بغیر کیسے ممکن ہے؟
ایک بات تو یہ ہے کہ جو نقاب پوش لوگ پارلیمنٹ کے اندر آئے وہ خود سے نہیں آئے، ان کو کس نے بلایا؟ دوسری بات یہ ہے کہ جب اجلاس چل رہا ہو تو اراکین اسمبلی کی گرفتاری کے لیے سپیکر کی اجازت درکار ہوتی ہے؟ کیا ان گرفتاریوں کے لیے سپیکر نے اجازت دی تھی۔
زاہد حسین نے کہا کہ ان اقدامات سے حکومت نے علی امین گنڈاپور کی تقریر سے توجہ ہٹا کر پھر سے خود پر تنقید کا موقع فراہم کر دیا ہے۔

تجزیہ کار حسن عسکری نے کہا کہ ’حکومت ریاستی اداروں کو اپنے سیاسی مخالف کے خلاف استعمال کر رہی ہے‘ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

پاکستان میں سیاست مزید منفی رخ اختیار کر رہی ہے
سینیئر تجزیہ کار اور صوبہ پنجاب کے سابق نگراں وزیراعلٰی ڈاکٹر حسن عسکری کے مطابق 8 ستمبر کے بعد ہونے والے واقعات سے پاکستان میں سیاسی صورتحال مزید خراب ہوئی ہے اور سیاسی درجہ حرارت کم ہونے کی بجائے بڑھا ہے۔
پچھلے دو تین دنوں کے واقعات یہ ثابت کرتے ہیں کہ پاکستان میں قوت برداشت مزید کم ہوئی ہے اور سیاست مزید منفی رخ اختیار کرتی جا رہی ہے۔
حسن عسکری نے کہا کہ ’حکومت ریاستی اداروں کو اپنے سیاسی مخالف کے خلاف استعمال کر رہی ہے۔ ریاستی ادارے غیرذمہ دارانہ اقدامات کر رہے ہیں۔ اور حکومت اور ریاستی ادارے دونوں مل کر تحریک انصاف کو دبانا چاہ رہے ہیں۔
ہر ادارہ سیاست کو کمزور کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ پاکستان میں تقسیم بہت بڑھ گئی ہے اور آزادانہ رائے اور تجزیہ اب باقی نہیں رہا۔‘
حسن عسکری نے کہا کہ حکومت اور ریاستی اداروں کی تمام تر کوشش کے باوجود انہیں کامیابی نہیں مل رہی۔
جو اقدامات وہ مل کر کر رہے ہیں ایسے اقدامات کو کبھی کامیابی نہیں ملتی۔‘ 
بات چیت کی اجازت نہ ملنا نقصان دہ عمل ہے
زاہد حسین کے خیال میں مزید سیاسی تقسیم اور حالات کو خراب ہونے سے بچانے کے لئے فریقین کو مفاہمت کے لیے اقدامات کرنے چاہییں۔
قانون کی حکمرانی کے لئے کام کیا جانا چاہیے۔ اپوزیشن کو جلسوں کی اجازت ملنی چاہیے۔ اس بات پر اتفاق ہونا چاہیے کہ آپ کسی کو جلسے یا بات کرنے کے حق سے نہیں روک سکتے۔
اگر بات کرنے کی اجازت نہیں ملتی تو یہ امر نقصان دہ ہے۔

شیئر: