Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پی ٹی آئی رہنماؤں کی جارحانہ تقاریر، عمران خان کیلئے فائدہ یا نقصان؟ 

جلسے میں علی امین گنڈا پور، مراد سعید اور خالد خورشید نے اداروں کی اتھارٹی کو چیلنج کیا۔ فوٹو: اے ایف پی
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنماؤں نے اسلام آباد کے قریب سنگجانی میں ہونے والے جلسے میں حکومت اور ریاستی اداروں کے خلاف سخت جارحانہ انداز اپنایا، اور عمران خان کی رہائی کے لیے اداروں جبکہ لاہور میں جلسہ روکنے کے لیے پنجاب حکومت کو کھل کر چیلنج کیا۔ 
اس جلسے میں پی ٹی آئی کی مرکزی قیادت نے بھی خطاب کیا لیکن ان کا لب و لہجہ سخت نہیں تھا۔ دوسری جانب صوبہ خیبر پختونخوا کے وزیراعلیٰ علی امین گنڈا پور، سابق وفاقی وزیر مراد سعید اور سابق وزیراعلیٰ گلگت بلتستان خالد خورشید نے جارحانہ انداز میں حکومت اور اداروں کی اتھارٹی کو چیلنج کیا۔

علی امین گنڈاپور کا خطاب: اسٹیبلشمنٹ، حکومت اور میڈیا کو چیلنج

ان تقاریر نے اگرچہ پی ٹی آئی کے کارکنوں کو تو گرمایا ہے اور وہ سمجھ رہے ہیں کہ ان کی جماعت مفاہمت کے بجائے مزاحمت کے لیے تیار ہے تاہم سنجیدہ سیاسی حلقوں میں ان تقاریر کا مطلب کچھ اور ہی لیا جا رہا ہے۔ 
سیاسی امور کی ماہر ڈاکٹر آمنہ محمود نے تحریک انصاف کی حکمت عملی کو اسٹیبلشمنٹ پر دباؤ بڑھانے کا ایک طریقہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’تحریک انصاف کی ساری مرکزی قیادت نے صرف وفاقی حکومت کے خلاف تقاریر کیں اور یہ سوچی سمجھی ترکیب تھی تاکہ جب کبھی بات چیت کا موقع آئے تو اسٹیبلشمنٹ ان پر معترض نہ ہو۔‘
انھوں نے کہا کہ ’علی امین گنڈاپور اس وقت ایک سٹریٹجک صوبے میں وزیراعلٰی ہیں جبکہ مراد سعید مقتدر حلقوں کے لیے ایک بڑا چیلنج ہیں کہ کوئی ادارہ بھی انھیں گرفتار نہیں کر سکا۔ اس لیے ان کے ذریعے ایک طرف اداروں پر دباؤ بڑھانے کی کوشش کی گئی ہے کہ وہ عمران خان کا مقدمہ ملٹری کورٹس کو نہ بھیجیں اور دوسری جانب پنجاب کی حکومت کو چیلنج کر کے صوبے کے ورکرز کو متحرک کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔‘ 
ڈاکٹر آمنہ محمود کے مطابق ’یہ حکمت عملی کچھ زیادہ کامیاب ثابت نہیں ہوگی۔ علی امین کی جانب سے پنجاب کے حوالے سے جو زبان استعمال کی گئی اس سے تحریک انصاف پنجاب دفاعی پوزیشن میں جا سکتی ہے جو پہلے ہی تنظیمی مشکلات کا شکار ہے۔ دوسری جانب جلسے سے قبل ہی پی ٹی آئی پنجاب کے متحرک ورکرز زیرِعتاب آ جائیں گے۔‘

تجزیہ کاروں کے مطابق پی ٹی آئی اپنی احتجاجی تحریک کو تیز کر رہی ہے تاکہ عمران خان کی رہائی کو یقینی بنا سکے۔ فوٹو: اے ایف پی

انہوں نے مزید کہا کہ ’اپنے ورکرز کا مورال بلند کرنے کے اور بھی کئی انداز اور طریقے ہو سکتے تھے لیکن موجودہ قیادت نے اس راستے کا انتخاب کیا جس سے تحریک انصاف کو بحیثیت جماعت اور عمران خان کو فائدے کے بجائے نقصان پہنچنے کے امکانات زیادہ ہیں۔‘
حکومتی رہنماؤں کا ردعمل 
گورنر خیبرپختونخوا فیصل کریم کنڈی نے علی امین گنڈا پور کی تقریر پر شدید افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’پختون معاشرے میں ایسی روایات نہیں پائی جاتیں جو خواتین کی بے حرمتی یا دھمکیوں پر مبنی ہوں۔ ان کی باتیں روایتی بھڑکوں کے سوا کچھ نہیں تھیں۔ ان باتوں سے پارٹی کے اندر اور باہر منفی تاثر پیدا ہوا۔‘
وفاقی وزیر اطلاعات،عطا تارڑ نے بھی اس معاملے پر اپنا ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ پختونوں کی روایات صدیوں پرانی ہیں اور وہ ماں، بہن اور بیٹی کی عزت کو اپنی اولین ترجیح سمجھتے ہیں۔
’جو شخص دہشت گردوں کا سامنا کرنے سے ڈرتا ہے، وہ خواتین کو للکار رہا ہے۔ اگر آپ واقعی بہادر ہوتے، تو دہشت گردوں کے خلاف خود میدان میں اترتے اور سکیورٹی ایجنسیز کے ساتھ مل کر کارروائی کرتے۔‘
 انہوں نے علی امین کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ’آپ لاہور آئیں، ہم دیکھیں گے کہ آپ کیا کرتے ہیں۔ پی ٹی آئی نے اپنے جلسے کو کامیاب بنانے کے لیے سرکاری وسائل اور مشینری کا بے دریغ استعمال کیا، جو خیبر پختونخوا میں جاری اندھیر نگری چوپٹ راج کی عکاسی کرتا ہے۔‘
’علی امین نے ایک ناکام جلسے کا غصہ مریم نواز اور اداروں پر نکالا اور جو روٹ انتظامیہ کی طرف سے دیا گیا تھا، وہ کھلا تھا، لیکن پی ٹی آئی نے جان بوجھ کر تنازع پیدا کرنے کی کوشش کی۔‘
عطا تارڑ نے علی امین گنڈا پور کو نصیحت کرتے ہوئے کہا کہ ’آپ ایک صوبے کے وزیر اعلیٰ ہیں، لہٰذا سنجیدگی کا مظاہرہ کریں اور دہشت گردی کے خلاف استحکام کی جنگ میں شامل ہوں۔ انہوں نے علی امین کو اپنے صوبے میں ترقیاتی کاموں پر توجہ دینے اور عوام کو صحت و تعلیم کی بنیادی سہولیات فراہم کرنے کی تلقین کی۔‘

وزیر اطلاعات عطا تارڑ کا کہنا ہے کہ نے پی ٹی آئی نے جلسے کو کامیاب بنانے کے لیے سرکاری وسائل کا استعمال کیا۔ فوٹو: اے ایف پی

پنجاب کی صوبائی وزیر اطلاعات، عظمیٰ بخاری نے بھی علی امین گنڈا پور کی تقریر پر شدید تنقید کی اور کہا کہ انہوں نے اپنی خاندانی تربیت کا واضح مظاہرہ کیا ہے۔
’علی امین کی بیوی اور ماں کو انہیں یہ سکھانا چاہیے تھا کہ خواتین کے بارے میں نازیبا زبان استعمال نہیں کرنی چاہیے۔‘
مراد سعید کا ویڈیو پیغام اور نتائج؟
سابق وزیر مراد سعید جو وفاقی حکومت کے خاتمے کے بعد سے پس منظر میں تھے، پہلی بار پھر منظر عام پر آئے اور ویڈیو پیغام کے ذریعے اسٹیبلیشمنٹ مخالف مؤقف اپناتے ہوئے عوام سے حلف بھی لیا۔
تحریک انصاف کی جانب سے مراد سعید کا ویڈیو پیغام جلسے میں چلانے کو بھی ایک بڑا قدم قرار دیا جا رہا ہے جسے مقتدر حلقوں میں پسند نہیں کیا جا رہا۔ 
سیاسی تجزیہ نگار رسول بخش رئیس نے کہا کہ جلسے میں سیاسی رہنماؤں کی جانب سے جارہانہ خطابات کا مقصد صرف لوگوں کے جذبات کو گرمانا تھا تاکہ مزاحمت کا بیانیہ جاری رکھنے کا عندیہ دیا جا سکے۔
’تحریک انصاف کے رہنما مستقبل میں بھی ایسا کرتے رہیں گے یہ ان کی سیاسی ضرورت ہے۔ بصورت دیگر ان کا ورکر ان سے نالاں ہو جاتا ہے اور وہ موجودہ قیادت پر طعن و تشنیع شروع کر دیتا ہے۔‘
 ان کا کہنا تھا کہ اصل معاملات جب کبھی بھی طے ہوئے عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان ہی طے ہوں گے لیکن فوری طور پر ایسا ہوتا نظر نہیں آرہا، یہ بہت دور کی بات ہے۔
 رسول بخش رئیس نے کہا کہ ’اس وقت ایک بندوبستی نظام موجود ہے جس کے چار فریق ہیں جن میں دو سیاسی ایک کا تعلق عدلیہ اور ایک کا مقتدرہ سے ہے۔ اس نظام کی بھی مجبوری ہے کہ وہ اپنا سیاسی اتحاد برقرار رکھے اور اس کو مزید مستحکم اور مضبوط کرنے کے لیے آئینی ترمیم کا بھی سہارا لیا جا رہا ہے۔‘
 انہوں نے کہا کہ جلسے اور اس میں ہونے والی تقاریر کے بعد ایک بات تو واضح ہو گئی ہے کہ مفاہمت نہیں ہو رہی اور اب یہ اگر مگر کی بات نہیں رہی۔
’جب مفاہمت نہیں ہو رہی تو یہ تحریک انصاف اور عمران خان کا نقصان ہے۔ اگر کبھی مفاہمت ہوئی تو اس میں حکومت کو اعتماد میں نہیں لیا جائے گا بلکہ یہ اسٹیبلشمنٹ اور عمران خان کے درمیان بھی ہوگا لیکن اس کے مستقبل قریب میں کوئی آثار نظر نہیں آ رہے۔‘

پی ٹی آئی نے جلسے میں مراد سعید کا ویڈیو پیغام چلایا۔ فوٹو: اے ایف پی

 تجزیہ کار منیب فاروق نے پی ٹی آئی کے رہنماؤں کی تقاریر پر اسٹیبلشمنٹ کا ردعمل بیان کرتے ہوئے کہا کہ ’اسٹیبلشمنٹ نے اشارہ دیا ہے کہ عمران خان اور 9 مئی کے کیسز کی کارروائی پہلے سست تھی، تو اب اسے تیزی سے مکمل کیا جائے گا، جس سے پی ٹی آئی کے لیے مزید کم گنجائش باقی رہ جائے گی۔‘
تجزیہ کاروں کے مطابق پی ٹی آئی اپنی احتجاجی تحریک کو تیز کر رہی ہے تاکہ اپنے چیئرمین عمران خان کی رہائی کو یقینی بنا سکے اور حکومتی اتحاد کے ساتھ بڑھتے ہوئے تناؤ کے ساتھ، سیاسی منظرنامہ مزید محاذ آرائیوں کے لیے تیار نظر آ رہا ہے۔
اب سب کی نظریں مقتدر حلقوں کے عملی ردعمل پر ہیں جس سے حتمی طور پر تعین کیا جا سکے گا کہ تحریک انصاف جلسے اور اس میں جارحانہ تقاریر کے ذریعے دباؤ بڑھانے میں کامیاب ہوئی ہے یا یہ تقاریر تحریک انصاف اور اس کی قیادت کے لیے نقصان دہ ثابت ہوئی ہیں۔
پریس کلبز کا علی امین گنڈا پور کے بیان پر احتجاج
نیشنل پریس کلب اور لاہور پریس کلب نے وزی اعلٰی خیبرپختونخوا علی امین گنڈا پور کی جانب سے صحافیوں سے متعلق ’غیرذمہ دارانہ الفاظ‘ کی شدید مذمت کی ہے۔
لاہور پریس کلب نے ایک بیان میں کہا کہ ’جلسے میں صحافیوں پر لگائے گئے الزامات اور خاتون صحافیوں کے بارے میں طنزیہ ریمارکس علی امین گنڈا پور کی دماغی صحت پر سوالیہ نشان ہیں۔‘
پریس کلب نے مطالبہ کیا کہ جن صحافیوں کو پیسے دیتے ہیں یا جو صحافی بلیک میل کرتے ہیں ان کے نام سامنے لائیں ورنہ ہر فورم پر احتجاج کریں گے۔
نیشنل پریس کلب نے کہا کہ اگر وزیراعلٰی نے اپنے بیان پر معافی نہ مانگی تو صحافتی تنظیموں سے مشاورت کے بعد پی ٹی آئی کی کوریج کا مکمل بائیکاٹ کیا جائے گا۔
صحافیوں کا پارلیمنٹ کے اجلاس سے واک آؤٹ، پی ٹی آئی رہنماؤں کی معافی
پیر کو پارلیمنٹیری رپورٹرز ایسوسی ایشن آف پاکستان نے سینیٹ اور قومی اسمبلی کے اجلاسوں سے واک آؤٹ کیا اور علی امین گنڈا پور کے ریمارکس کی مذمت کی۔
پی ٹی آئی کے چیئر مین بیرسٹر گوہر اور قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر عمر ایوب خان نے پریس گلیری میں جا کر صحافیوں سے معافی مانگی۔

شیئر: