یہ انتخاب ’برڈ آف دی ایئر‘ کی مہم کے تحت سامنے آیا ہے جو کہ ماضی کے مقابلے میں زیادہ شفاف ہے اور اس میں بیرونی مداخلت یا کسی قسم کا سکینڈل دیکھنے میں نہیں آیا۔
اس سے قبل طویل عرصے تک چلنے والی مہم میں پرندے کے سپورٹرز نے لوگوں سے ووٹ مانگے۔
اس مہم میں جدید ذرائع بھی استعمال ہوئے۔ مہم کے دوران مختلف میمز سامنے آتی رہیں جبکہ لوگوں نے اپنے جسم پر پرندوں کے ٹیٹوز بنوا کر اپنی پسند کے پرندے کو سپورٹ کیا۔
الیکشن میں 50 ہزار سے زیادہ لوگوں نے ووٹ کے ذریعے اپنی رائے کا اظہار کیا تاہم یہ تعداد پچھلے سال کی تعداد سے کم ہے جو کہ تین لاکھ تھی۔
جب برطانوی ٹی وی میزبان جان اولیور نے اس موقع پر ایک نایاب نسل کی بطخ کے لیے ایک تفریحی مہم چلائی تھی، جو اپنے پروں کو کھاتی ہے اور پھر الٹی کرتی ہے۔ اس کی بدولت وہ بھاری اکثریت سے جیت گئی تھی۔
اس برس الیکشن میں حصہ لینے والوں کی تعداد نیوزی لینڈ کی کل آبادی کے ایک فیصد حصے کی نمائندگی کرتی ہے۔
نیوزی لینڈ ایک ایسا ملک ہے جہاں ہر طرف فطرت کے رنگ بکھرے ہوئے ہیں اور یہاں کے باسی بچپن سے ہی پرندوں کے ساتھ خصوصی محبت رکھتے ہیں۔
مقامی طور پر رورو کے نام سے جانے والے ایک چھوٹے اُلو جو چوتھے پر آیا اور اداس آواز نکالنے کے لیے مشہور ہے، کی انتخابی مہم چلانے والی ایما راسن کہتی ہیں کہ ’پرندے ہمارے دل اور روح کا حصہ ہیں۔‘
نیوزی لینڈ کا واحد ممالیہ پرندہ چمگادڑ ہے جبکہ ایسے سمندری جاندار بھی موجود ہیں جو پر رکھتے ہیں اور ان میں سے اکثر نایاب ہیں۔
اس سال مقابلہ جیتے والے پینگوئن کو مقامی طور پر ہوئہو کہا جاتا ہے، اور اس کا مطلب ہے ’شور مچانے والا‘۔
اس کو ایک شرمیلا پرندہ سمجھا جاتا ہے اور دنیا کا نایاب ترین پینگوئن بھی قرار دیا جاتا ہے۔
یہ صرف نیوزی لینڈ کے جنوبی جزائر پر پایا جاتا ہے اور پچھلے 15 برس کے دوران ان کی تعداد میں 78 فیصد تک کمی آئی۔
محکمہ جنگلات کے سربراہ نیکولا ٹوکی ایونٹ کے حوالے سے کہتے ہیں کہ ’ایسی سرگرمی کے لیے اس سے بہتر وقت نہیں ہو سکتا تھا کیونکہ یہ پینگوئن ہماری آنکھوں کے سامنے زمین سے غائب ہو رہا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’تحفظ کے لیے کی جانے والی تمام تر کوششوں کے باوجود پرندے جالوں میں پھنس کر اور سمندر میں ڈوب کر جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں کیونکہ ان کو کافی خوراک نہیں مل پاتی۔‘
ہوئہو کے لیے انتخابی مہم چلانے والے چارلی بوچن کا کہنا ہے کہ ’اس مہم سے شعور بھی اجاگر ہوا ہے اور امید افزا بات یہ ہے کہ پرندوں کے لیے ٹھوس حمایت بھی سامنے آئی ہے۔‘
اس مقابلے نے برطانوی زوالوجسٹ جین گوڈال اور دو سابق وزرائے اعظم کی توجہ بھی حاصل کی۔
جیتنے والے پرندے کی مہم چلانے والوں نے سیاسی میدانوں سے لے کر سکولوں تک اس کا دائرہ بڑھایا۔
اس کے لیے اجتماعی مہم چلائی گئی جس میں جنگلی حیات سے تعلق رکھنے والے گروپس، ایک مقامی عجائب گھر، ایک مشروب ساز ادارہ اور رگبی کی ٹیم کے کھلاڑی بھی شامل تھے۔
اسی کی بدولت جیتنے والے پرندے کی مہم عروج پر پہنچی۔
چند روز قبل تک مختلف پرندوں کے لیے مہم چلانے والوں کے درمیان میمز کا مقابلہ بھی دیکھنے کو ملا، جس میں لوگوں نے پرندوں کے رنگوں پر مشتمل لباس پہنے اور تصاویر شیئر کیں اور ٹیٹوز بنوائے۔