ن لیگ والے کہتے ہیں کہ آئینی ترامیم پر اپوزیشن آپ کے ساتھ دھوکہ کر رہی ہے: بلاول بھٹو
ن لیگ والے کہتے ہیں کہ آئینی ترامیم پر اپوزیشن آپ کے ساتھ دھوکہ کر رہی ہے: بلاول بھٹو
جمعرات 19 ستمبر 2024 20:44
بلاول بھٹو نے کہ ’ پیپلز پارٹی اور جے یو آئی کا مسودہ ہی اکثریت بنا سکے گا۔‘ (فوٹو: سکرین گریب)
پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے آئینی ترامیم کے لیے جے یو آئی سمیت اپوزیشن کے ساتھ مذاکرات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ ن لیگ والے مجھے کہتے ہیں کہ آپ کے ساتھ دھوکہ کیا جا رہا ہے۔ ہمارے ساتھ پہلے بھی دھوکہ ہوا اور اب بھی اپوزیشن والے سنجیدگی نہیں دکھا رہے۔ یہ اپوزیشن کے حربے ہیں اور وہ نہیں چاہتے کہ ہم آئین سازی کریں۔‘
اے آر وائی کے پروگرام ’آف دی ریکارڈ‘ میں کاشف عباسی کے ساتھ بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’میں ن لیگ کو کہتا ہوں کہ ایسا نہیں ہے میرے مولانا فضل الرحمن کے ساتھ تین نسلوں سے تعلقات ہیں۔ ہم ایک دوسرے کے ساتھ سیاست کرتے آ رہے ہیں، کبھی اپوزیشن میں ہوتے ہیں اور کبھی حکومت میں ہوتے ہیں۔ وہ سنجیدگی سے ہمارے ساتھ بیٹھنا چاہتے ہیں۔ اگر وہ بیٹھتے ہیں تو میں یقین سے کہتا ہوں کہ جو ترامیم ہونے جا رہی ہیں ہم ان میں مزید بہتری لا سکتے ہیں۔‘
’لیکن اگر ان کی دلچسپی نہیں ہے تو پھر میں نے جو پلیئرز رہتے ہیں ان کے ساتھ اتفاق رائے کرنا ہے۔ کچھ ان کے نقاط ماننے پڑیں گے کچھ اپنے منوانے پڑیں گے۔ اس صورتحال میں اگر جے یو آئی کو مائنس کر کے ووٹس لینے پڑین گے تو جن ترامیم پر ان کے اعتراضات ہیں وہ تو پیچھے رہ جائیں گے اور ان کی تجاویز شامل نہیں ہوں گی چاہے وہ آرٹیکل 8 ہو، 51 یا 199 ہو۔‘
بلاول بھٹو نے کہا کہ ’اگر وہ پیپلز پارٹی کے ساتھ مل کر مسودہ بناتے تو ہیں پیپلز پارٹی اور جے یو آئی کا مسودہ ہی اکثریت بنا سکے گا۔‘
پرواگرام کے دوران بلاول بھٹو کو جے یو آئی کے سینیٹر کامران مرتضیٰ کا کلپ سنوایا گیا جس میں وہ کہہ رہے تھے کہ ’پارلیمنٹ میں ووٹنگ سے ایک رات پہلے دو بجے مولانا کے گھر میں ایک مسودہ بھجوایا گیا اور جب ہم اس کا جائزہ لے رہے تھے تو بلاول آئے۔ ہم نے ان سے پوچھا کہ اس میں آرٹیکل 8 کی ترمیم ہے کیا آپ نے دیکھی، تو بلاول نے کہا کہ جی ہاں مجبوری ہے، اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے۔ انہوں نے کہا آب اس پر اعتراض اٹھائیں ہماری تو مجبورہ ہے۔‘
اس پر بلاول بھٹو نے کہا کہ ’کامران مرتضیٰ نے ہمارے ساتھ مسودے پر کام کرنا تھا لیکن وہ مرتضیٰ وہاب کا فون نہیں اٹھا رہے۔ اگر ہم بیٹھتے تو ہم ان کو خود واضح کر دیتے کہ ایسا معاملہ نہیں ہے۔ ہمیں نہ کوئی مجبوری ہے اور نہ کسی کا خوف ہے۔‘
پیپلز پارٹی کے چیئرمین نے کہا کہ ’آئین کی حفاظت اور جمہوری نظام کی بات کی جائے تو اس میں پیپلز پارٹی کا اتنا ہی کردار ہے جتنا مولانا فضل الرحمن کی جماعت جے یو آئی کا ہے۔ مولانا فضل الرحمن کے ساتھ سیاسی اختلاف ہو سکتا ہے کہ لیکن ہم تین نسلوں سے ایک دوسرے کو جانتے ہیں۔‘
بلاول بھٹو نے کہا کہ ’حکومت کے مسودے میں آرٹیکل 8 اور 23 کی ترمیم تھی، وہ پورے طریقے سے ملٹری کورٹس قائم کرنا چاہ رہے تھے نئی ترمیم کے ذریعے۔ آرٹیکل 8 میں فوجی اہلکاروں کا ذکر تھا ان کی انسٹالیشنز کا ذکر تھا۔ مولانا فضل الرحمن اور سینیٹر کامران مرتضیٰ نے اس پر اعتراض کیا۔ میں نے حکومت سے کہہ کر آرٹیکل 8 اور 51 کی ترمیم نکلوا دی۔‘
انہوں نے کہا کہ آرٹیکل 199 پر مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کی مختلف رائے ہے۔
بلاول بھٹو نے کہا کہ ’عدلیہ میں اصلاحات کی ضرورت ہے اور عام انتخابات میں ان کے منشور میں شامل تھا کہ آئینی عدالت بنائی جائے۔ جوڈیشل تقرریوں کے طریقہ کار میں تبدیلی لانی ہے۔ حکومت نے میرے منشور کا مطالبہ مانا ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’میرے دل میں چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس منصور علی شاہ دونوں کے لیے عزت ہے۔ یہ دونوں میرے نانا کے بینچ میں بیٹھے تھے اور مجھے انصاف دیا۔‘
ان سے سوال کیا گیا کہ ججوں کی مدت ملازمت 68 برس تک کرنے بات کی گئی اور کہا کہ پانچ سینیئر ججوں میں سے منتخب کر لو اور کہا جا رہا ہے آئینی عدالت بنا لو، کیا ایک وزیراعظم چیف جسٹس تعینات کرے گا؟
بلاول بھٹو نے کہا کہ ’صرف باتیں نہیں اس کی کوشش کی جا رہی تھی۔ اور جب وہ ووٹ لینے کے لیے پیپلز پارٹی کے پاس آئے تو ہم نے کہا کہ یہ آپ کی خواہش ہو سکتی ہے لیکن ہمارے منشور میں یہ شامل نہیں ہے۔ اس کے بعد کوئی ایسی بات نہیں ہوئی۔ میرا پوائنٹ مانا گیا۔‘