Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

آئینی ترمیم پیش کرنے میں حکومت کی ناکامی، کس نے کیا کردار ادا کیا؟

وفاقی حکومت کی جانب سے آئینی ترامیم کی منظوری کی پہلی کوشش اگرچہ ناکام ہو گئی ہے لیکن اس کے باوجود حکومت اور اس کی اتحادی جماعت پیپلز پارٹی کی جانب سے آئینی ترمیمی پیکیج منظور کرانے کی کوششیں ختم نہیں ہوئیں۔
حکومت کی جانب سے آئینی ترمیمی پیکیج اگلے اجلاس تک ملتوی کیے جانے کے اعلان کے بعد اس ترمیم کو روکنے یا اس کی منظوری کے خلاف متحرک تمام قوتوں کی جانب سے حکومت کو ناکام بنانے کا تمام کریڈٹ مولانا فضل الرحمن کو دیا گیا۔
تحریک انصاف سمیت وکلاء تنظیموں کا انھیں حکومت کا راستہ روکنے پر خراج تحسین پیش کرنے کا سلسلہ تاحال جاری ہے۔ دوسری جانب عمران خان کا خصوصی پیغام لے کر سابق صدر عارف علوی نے بھی مولانا فضل الرحمن سے ملاقات کی۔
اس صورتحال پر تجزیہ کرتے ہوئے تجزیہ کار ماجد نظامی کا کہنا ہے کہ ’حکومت کی جانب سے مجوزہ آئینی ترمیم پر شروع ہونے والے تنازعات ریاستی اداروں کی  جلد بازی اور ناقص سیاسی منصوبہ بندی کو ظاہر کرتے ہیں۔ ترامیم کو منظر عام پر دیر سے لانا، ناقابل فہم تاویلات اور غیر منظم میڈیا سٹریٹیجی نے ترمیم سے متعلق شکوک و شبہات میں اضافہ کیا۔ جس کی وجہ سے اتحادی جماعتوں میں بے چینی پیدا ہوئی۔‘
انھوں نے کہا کہ ’جس بے ہنگم طریقے سے جمعیت علمائے اسلام کو قائل کرنے اور دیگر ووٹوں کو پورا کرنے کی کوشش کی گئی، اس سے صاف پتا چلتا ہے کہ یہ ترامیم عوامی مفادات کے بجائے مخصوص ریاستی عزائم کو پورا کرنے کے لیے لائی جا رہی ہے۔‘
آئینی ترمیمی پیکیج، حکومت اور اپوزیشں دونوں کو مولانا فضل الرحمن سے امیدیں
حکومت کی جانب سے جونہی آئینی ترمیمی پیکیج لانے کا ارادہ ظاہر کیا گیا جس کی منظوری کے لیے دو تہائی اکثریت درکار ہے تو اسی لمحے مولانا فضل الرحمن کی اہمیت بڑھ گئی۔ یہ موقع تھا جب مولانا فضل الرحمن موجودہ حکومتی اتحاد، مقتدر قوتوں اور تحریک انصاف سب کے ساتھ اپنا حساب برابر کرنے کی پوزیشن میں آگئے۔
اسلام آباد میں مولانا فضل الرحمن کی رہائش گاہ سیاسی سرگرمیوں اور ملاقاتوں کا مرکز بن گئی۔ چند دنوں کے اندر اندر صدر، وزیراعظم، ڈپٹی وزیراعظم، قائد حزب اختلاف، تحریک انصاف کی سیاسی کمیٹی اور کئی سیاسی و قانونی رہنماؤں نے لائن میں لگ کر ملاقاتیں کیں۔ ایک وفد نکلتا تو دوسرا ان کے دروازے پر ملاقات کے لیے موجود ہوتا۔ ہر کسی نے مولانا فضل الرحمن کو اپنے موقف پر قائل کرنے کی کوشش کی، لیکن مولانا فضل الرحمن نے کسی کی نہ سنی اور اپنا الگ موقف اپناتے ہوئے نہ صرف سرکاری ملازمین کی ریٹائرمنٹ کی عمر بڑھانے کے راستے میں رکاوٹ بنے بلکہ یہاں تک کہہ دیا کہ وہ کسی فرد واحد کے لیے ہونے والی ترمیم کی حمایت نہیں کریں گے۔
مولانا فضل الرحمن نے ہی حکومت کو آئینی ترمیم التوا میں ڈالنے پر مجبور کیا اور کہا کہ ایسے معاملات عجلت میں انجام نہیں دیے جا سکتے بلکہ اس کے ایک ایک پہلو کا جائزہ لینا پڑے گا۔ جس کے لیے وقت درکار ہے۔
سیاسی حلقوں میں یہ بات بھی کی جا رہی ہے کہ مولانا فضل الرحمن کا وقتی انکار عوامی سطح پر اپنا تشخص بہتر بنانے اور ماضی کے برعکس عہدوں کے بدلے حکومت کی حمایت کرنے کا تاثر غلط ثابت کرنے کی ایک کوشش ہے۔

مولانا فضل الرحمن نے حکومت کو آئینی ترمیم التوا میں ڈالنے پر مجبور کیا (فوٹو: سکرین گریب)

دوسری جانب مولانا فضل الرحمن نے سنیارٹی کے بجائے میرٹ کی تجویز دیتے ہوئے سپریم کورٹ کے تین سینیئر ججوں میں سے ایک کو چیف جسٹس بنانے کا راستہ دکھایا جسے منظور کر لیا گیا۔
اب جب بلاول بھٹوزرداری آئینی ترمیمی پیکیج منظور کروانے کے لیے ڈرائیونگ سیٹ سنبھال چکے ہیں تو ان کا ہدف بھی مولانا فضل الرحمن کو قائل کرنا ہے بلکہ مولانا کے ذریعے تحریک انصاف کی حمایت بھی حاصل کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔
اس حوالے سے سینیئر پارلیمانی صحافی رانا غلام قادر نے کہا کہ ’اس سارے معاملے میں مولانا فضل الرحمن حقیقی فاتح کے طور پر سامنے آئے ہیں۔ پی ڈی ایم کے سربراہ سے ن لیگ اور پیپلز پارٹی کی بے رخی سے دل برداشتہ مولانا کو جب معلوم ہو گیا کہ ان کے بغیر ترمیم نہیں ہو سکتی تو انھوں نے ان کی ناک سے لکیریں نکلوائیں۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ’اس ساری صورتحال میں بھی مولانا کا کمال یہ ہے کہ وہ حکومت اور پی ٹی آئی کے درمیان پل کا بھی کردار ادا کر رہے ہیں۔‘
کبھی نرم کبھی گرم، بلاول بھٹو کا منفرد کردار
حکومت کی جانب سے آئینی ترمیمی پیکیج لانے کی تیاریاں ہو رہی تھیں کہ ایسے میں تحریک انصاف کے ارکان اسمبلی کی پارلیمنٹ کے احاطہ سے گرفتاریوں نے معاملہ گرما دیا۔ ایسے میں جب اپوزیشن رہنما ایوان میں اپنی جوشیلی تقریروں کے ذریعے حکومت کو بیک فٹ پر دھکیل چکے تھے کہ بلاول بھٹو زرداری نے اسمبلی کے فلور پر ایک معتدل تقریر کرتے ہوئے تجویز دی کہ پارلیمان کا ماحول بہتر بنانے کے لیے تمام جماعتوں پر مشتمل ایک پارلیمانی کمیٹی تشکیل دی جائے۔ جس کی تمام جماعتوں نے حمایت کی اور اسی روز کمیٹی تشکیل پا گئی۔
دوسرے تیسرے دن حکومت نے کمال ہوشیاری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس کمیٹی کو آئینی ترمیمی پیکیج پر بریفنگ دیتے ہوئے تمام جماعتوں کو اس کی حمایت پر قائل کرنے کی کوششیں شروع کر دیں۔ اگرچہ حکومت کو کامیابی تو حاصل نہ ہوسکی لیکن حکومت کم از کم اس کمیٹی کے ماحول کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اپوزیشن کو ترامیم کے بارے میں آگاہی دینے اور ان کے تحفظات سننے اور جواب دینے میں کامیاب ہوگئی۔ اس ساری کوشش میں بلاول بھٹوزرداری پیش پیش رہے۔
سنیچر کو بلاول بھٹوزرداری نے محسوس کیا کہ تحریک انصاف کسی صورت بھی ان ترامیم کی منظوری کے لیے حمایت نہیں کرے گی تو عمران خان کی ٹویٹ کو بنیاد بناتے ہوئے انھوں نے تحریک انصاف اور عمران خان کے خلاف دھواں دھار خطاب کیا۔ ان کی جماعت کے دیگر رہنماؤں راجا پرویز اشرف، شازیہ مری اور دیگر نے بھی پی ٹی آئی کو آڑے ہاتھوں لیا۔

بلاول بھٹوزرداری نے کہا کہ ’مولانا فضل الرحمن اصولی طور پر آئینی ترمیمی پیکیج سے متفق ہیں۔‘ (فوٹو: سکرین گریب)

آئینی ترمیمی پیکیج پیش کرنے کی آخری کوشش کے طور پر جہاں بلاول بھٹوزرداری نے مولانا فضل الرحمن سے ان کی رہائش گاہ پر حتمی ملاقات کرکے معاملات بہتر کرنے کی کوشش کی وہیں خصوصی پارلیمانی کمیٹی کے اجلاس میں خاص طور پر شریک ہوئے۔
ذرائع نے بتایا ہے کہ اس اجلاس کے دوران بلاول بھٹوزرداری نے مولانا فضل الرحمن کو زچ کرتے ہوئے کہا کہ مولانا جب آپ اس ترمیم سے اتفاق کرچکے ہیں تو پھر حمایت کا اعلان کرنے سے کیوں کترا رہے ہیں۔
جبکہ اسی اجلاس سے باہر نکل کر بلاول بھٹوزرداری نے کہا کہ ’مولانا فضل الرحمن اصولی طور پر آئینی ترمیمی پیکیج سے متفق ہیں لیکن وہ اسے متفقہ طور پر منظور کرانا چاہتے ہیں تو ہم نے ان کی اس تجویز سے اتفاق کیا ہے کہ اگر وہ پی ٹی آئی کو قائل کر سکتے ہیں تو کر لیں۔‘
بلاول بھٹوزرداری کے کردار کے حوالے سے رانا غلام قادر نے کہا کہ ’اب چونکہ وہ ڈرائیونگ سیٹ پر آ گئے ہیں اور کوشش کر رہے ہیں اور امید ہے کہ وہ کامیاب بھی ہو جائیں گے تو ایک تو تاریخ میں ان کا نام آ جائے گا۔ دوسرا وہ حکومت سے اپنے اور اپنی جماعت کے لیے بہت کچھ لینے میں کامیاب ہو جائیں گے۔‘
حکومتی کمیٹی کی خاموش حکمت عملی کارگر کیوں نہ ثابت ہو سکی؟
حکومت کی جانب سے ڈپٹی وزیراعظم اسحاق ڈار، اعظم نذیر تارڑ، اٹارنی جنرل اور دیگر پر مشتمل کمیٹی نے آئینی ترمیمی پیکیج کے حوالے سے خاموش کردار ادا کیا۔ کمیٹی نے سب سے پہلے اپنے اتحادیوں کو اعتماد میں لیا اور انھیں اس پیکیج کے خدوخال بارے میں آگاہ کیا۔ جس کے بعد اپوزیشن کا رخ کیا اور ساری امیدیں مولانا فضل الرحمن سے وابستہ کر لیں۔
سینیئر پارلیمانی صحافی رانا غلام قادر نے حکومت کے کردار پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کی طرف مناسب ہوم ورک کی کمی، آئینی ترمیمی پیکیج کے کئی خفیہ پہلوؤں پر اتحادی جماعتوں اور اپوزیشن کو اعتماد میں نہ لینے اور سیاسی پارہ ہائی ہونے کی وجہ سے یہ کمیٹی اپنا مشن پورا کرنے میں ناکام رہی۔
انھوں نے کہا کہ حکومت مولانا فضل الرحمن کے موڈ کو جج کرنے میں مکمل طور پر ناکام رہی اور اس کی وجہ ضرورت سے زیادہ خود اعتمادی تھی۔

تحریک انصاف نے کہا کہ پارلیمنٹ میں ووٹ صرف عمران خان کے احکامات کی روشنی میں ہی دیا جائے گا (فوٹو: سکرین گریب)

تحریک انصاف عمران خان کے اشارے کی منتظر
تحریک انصاف نہ صرف خود اس آئینی ترمیمی پیکیج کی مخالفت کر رہی تھی بلکہ مولانا فضل الرحمن کو اس کی حمایت نہ کرنے پر قائل کرنے میں بھی دن رات ایک کیے رکھا ہے۔ اگرچہ یہ خبریں سامنے اتی رہی ہیں کہ تحریک انصاف اس آئینی ترمیم کی ایک شق جس کے تحت آئینی عدالت کا قیام عمل میں لایا جانا ہے پر مشروط حمایت پر آمادہ ہے لیکن تحریک انصاف کے چیئرمین بیرسٹر گوہر نے اس کی تردید کی۔
ایک موقع پر جب اردو نیوز نے قائد حزب اختلاف عمر ایوب سے استفسار کیا کہ کسی سطح پر یہ آئینی ترمیمی پیکیج متفقہ طور پر منظور ہونے کا امکان ہے تو انھوں نے واضح طور نہ میں جواب دیا۔
تاہم گذشتہ روز سے تحریک انصاف کے موقف میں اتنی سی لچک ضرور دکھائی دے رہی ہے کہ صاف انکار کے بجائے اب تحریک انصاف کے رہنماؤں نے یہ کہنا شروع کر دیا ہے کہ پارلیمنٹ میں ووٹ صرف عمران خان کے احکامات کی روشنی میں ہی دیا جائے گا۔
اس حوالے سے رانا غلام قادر کہتے ہیں کہ ’میں نہیں سمجھتا کہ عمران خان کبھی اس آئینی ترمیم کا حصہ بنتے ہوئے اس کی حمایت کریں گے۔‘

شیئر: