Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

آئینی ترمیم: کیا ہوتا رہا، کیا ہونے جا رہا ہے؟ عامر خاکوانی کا کالم

بل کی منظوری میں تاخیر سے یہ ہوا کہ وکلا تنظیمیں بھی حرکت میں آگئی ہیں، حامد خان گروپ نے احتجاجی تحریک چلانے کا اعلان کر دیا ہے۔ (فوٹو: اے پی پی)

جوڈیشل پیکج ، پہلی خبر

 پانچ چھ دن قبل، ہفتہ کی رات ڈھائی پونے تین بجے میرے موبائل پر ایک میسج جگمگایا۔ دیکھا کہ ایک دوست کا میسج ہے، وہ فیس بک کے معروف بلاگر، لکھاری اور ٹریولر ہیں۔ وہ معروف معنوں میں صحافی نہیں اور نہ ہی ان کا سیاست سے کچھ زیادہ تعلق ہے۔ انہوں نے مجھے خبر دی کہ جوڈیشل پیکج آ رہا ہے اور اس کے لیے ہوم ورک بھی پورا ہے۔
انہوں نے پھر ایک دلچسپ انکشاف کیا کہ ججوں کی مدت ملازمت میں اضافہ نہیں ہو رہا اور اب پلان بی پر عمل ہوگا جس کے مطابق چیف جسٹس کے لیے پانچ سینیئر ججوں کے نام آئیں گے اور وزیراعظم یا کمیٹی فیصلہ کرے گی۔ کچھ مزید باتیں بھی بتائیں، یہ اشارہ بھی کیا کہ مولانا آن بورڈ ہیں۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ کہاں سے یہ معلومات آئی ہیں،ان کا سورس کوئی سیاسی جماعت نہیں تھی۔
 مجھے یہ سن کر حیرت ہوئی کیونکہ تب تک پورا میڈیا ججوں کی مدت ملازمت میں تین سالہ توسیع کی بات چلا رہا تھا۔ ہفتہ کے دن شام تک یہی صورتحال تھی۔ البتہ اتوار کی رات تک صورتحال بدلنا شروع ہو گئی اور پھر یہ بات سامنے آ گئی کہ ججوں کی مدت ملازمت میں توسیع نہیں ہو رہی، پانچ نام مانگے جائیں گے۔

 افراتفری سے بھرپور ہنگامہ خیز رات

اتوار کی رات میری اپنے اسی دوست سے دوبارہ بات ہوئی۔ اپ ڈیٹ پوچھا تو انہوں نے کہا کہ مولانا آن بورڈ تو تھے یعنی اصولی طور پر تواتفاق تھا، مگر اب وہ ڈٹ گئے ہیں، انہوں نے سٹینڈ لے لیا ہے۔
پتہ چلا کہ اب پانچ نام والا پلان کینسل ہو گیا، پلان بی آ گیا ہے جس میں تین نام ہوں گے اور سینیئر ترین جج ہی چیف جسٹس ہوں گے۔ مولانا نے دراصل حکومت سے اپنے ان مذاکرات میں ایک نئی بات کہہ دی کہ تحریک انصاف کو بھی آن بورڈ لیا جائے اور متفقہ آئینی ترمیم کی جائے۔
 اسی گفتگو میں حسبہ بل کے دوبارہ سے زندہ ہونے کا علم بھی ہوا۔ وہی بل جو ایم ایم اے کی صوبائی حکومت میں پیش کیا گیا تھا، مگر تب افتخار چودھری کی سپریم کورٹ نے اسے آئین سے متصادم قرار دے کر ختم کر دیا تھا۔
اس بل کے مطابق مفتی حضرات کو عدالتوں میں بطور منصب اکاموڈیٹ کرنا تھا۔ مولانا کے فارمولے کے حوالے سے بتایا گیا کہ انہوں نے تحریک انصاف کو کہا ہے کہ چیف جسٹس منصور علی شاہ ہی ہوں گے، آئینی عدالت کا سربراہ قاضی فائز عیسیٰ بن جائیں تاکہ حکومت کی بات بھی رہ جائے اور حسبہ بل کی منظوری سے دینی طبقات بھی اکاموڈیٹ ہو جائیں گے۔

 پلان جو پورا نہ ہو سکا

 ہماری چیٹ چل رہی تھی کہ اتنی دیر میں پارلیمنٹ کی خصوصی کمیٹی کا اجلاس شروع ہو گیا اور مولانا بھی اپنے وفد سمیت وہاں پہنچ گئے، تحریک انصاف کی قیادت بھی موجود تھی۔ تب تک توقع تھی کہ فوری معاملہ طے ہو جائے گا اور شاید آدھی رات کے قریب ہی آئینی ترمیم پیش کر کے منظور کر لی جائے گی۔
ن لیگ اور پیپلز پارٹی کی قیادت نے اپنے حساب سے نمبر بھی پور ے کر رکھے تھے۔ پھر بعد میں جو ہوا، وہ سب کے سامنے ہے۔ پھر مولانا ہی کے مشورے پر پہلے پارلیمنٹ کا اجلاس اتوار کی دوپہر کے لیے ملتوی ہوا اور پھر غیر معینہ مدت تک ملتوی کر دیا گیا۔

 پلان کیوں ناکام ہوا؟

 اس حوالے سے مختلف تھیوریز ہی بیان کی جا سکتی ہیں کہ کچھ نہ کچھ شاید ان سب میں صداقت ہے۔ یہ بات مگر ثابت شدہ ہے کہ سب سے بڑی رکاوٹ مولانا بنے۔ وہ ڈٹ کر کھڑے ہو گئے اور انہوں نے بلاول بھٹو کی تمام تر کوششوں، حکومت کی جانب سے گورنری، وزارتوں، ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کی پیش کش سمیت تمام ترغیبات کے باوجود انکار کر دیا۔
 مولانا کا یہ بے لچک رویہ حکومتی کیمپ کے لیے حیران کن رہا۔ مولانا حکمران جماعتوں ن لیگ اور پیپلزپارٹی سے سخت ناراض اور برہم تھے۔ ان کے قریبی حلقے کے لوگ بتاتے ہیں کہ مولانا کی اصل خفگی جناب آصف زرداری کے لیے تھی کیونکہ مولانا کی صدارت کی خواہش کی راہ میں بھی وہ رکاوٹ بنے اور بلوچستان میں بھی جے یوآئی کو معقول تعداد میں نشستیں لینے کے باوجود آوٹ کرنے والی پی پی پی ہی تھی۔

 ایک سازشی تھیوری کے مطابق حکومت کا ایک حلقہ اس ترمیم کی منظوری میں زیادہ دلچسپی نہیں رکھتا تھا۔ (فوٹو: اے پی پی)

پھر خیبر پختونخوا کی گورنر شپ کے لیے مولانا کے ایک روایتی حریف کنڈی خاندان کے فیصل کنڈی کو منتخب کیا گیا۔ بلاول بھٹو کو مولانا نے یہ بات تب کہی، جب انہوں نے طنزاً عمران خان کی جانب سے علی امین گنڈاپور کے تقرر کا ذکر کیا۔ مولانا نے صاف کہہ دیا کہ آپ لوگوں نے بھی وہ گورنر بنایا جو میرے خلاف الیکشن لڑتا اور میرا مخالف ہے، آپ کو بھی اور کوئی آدمی نہیں ملا۔
مولانا کے ن لیگ اور شریف برادران کے لیے بھی تحفظات تھے۔ اس سب کے باوجود حکومت کو یقین تھا کہ مولانا کو رضامند کر لیا جائے گا۔

 مولانا کے تحفظات کیا تھے؟

جے یوآئی کے حلقے مولانا کے سٹینڈ لینے کے پیچھے دو وجوہات کا ذکر کرتے ہیں۔ ان کے مطابق آئینی عدالت پر مولانا کو اعتراض نہیں تھا، سینیئر موسٹ چیف جسٹس بنتا یا دوسرے تیسرے نمبروالا، اس سے بھی انہیں سروکار نہیں۔ ہائی کورٹ ججز کی روٹین پر بھی وہ شاید خاموش رہتے۔ یہ ان کے یا ان کے ووٹرز کے ایشوز ہی نہیں۔ مولانا البتہ کسی بھی قسم کی ایکسٹینشن کے خلاف مضبوط عوامی موقف لے چکے ہیں اور ان کے لئیے اس سے ہٹنا ندامت کا باعث بنتا۔
اس لیے انہوں نے مدت ملازمت میں توسیع کی آپشن فوری رد کر دی۔ اس کے بعد ہی پلان بی کا سوچا گیا، جس میں پہلے پانچ نام اور پھر تین نام مانگے جانے کی تجویز تھی۔
 مولانا اور ان کی ٹیم کو تب دھچکا لگا جب بنیادی حقوق کے حوالے سے شقیں بھی شامل کی گئیں، آرٹیکل آٹھ میں ترمیم اور ملٹری کورٹس کی بات آئی اور پھر آئینی عدالت کو غیر معمولی طاقتور بنانے والی بات بھی ہضم کرنا آسان نہیں تھا۔ جے یوآئی کے قانونی مشیر بیرسٹر کامران مرتضیٰ نے یہ بات ٹی وی چینلز پر کہی کہ ہمیں رات دو بجے مسودہ دیا گیا کہ شاید نیند کی وجہ سے ہم اسے ٹھیک سے سمجھ نہ سکے، مگر جب پہلی نظر آرٹیکل آٹھ میں ترمیم پر پڑی تو ہم چوکنا ہو گئے۔

 مولانا اور ان کی ٹیم کو تب دھچکا لگا جب بنیادی حقوق کے حوالے سے شقیں بھی شامل کی گئیں۔ (فوٹو: پی ٹی آئی)

 مولانا کو تب لگا کہ اس عجلت میں یہ ترمیم منظور ہو گئی تو ان پر بہت زیادہ تنقید ہوگی۔ سب بوجھ پھرانہیں ہی اٹھانا پڑ جائے گا کہ ن لیگ اور پی پی تو ویسے ہی انتہائی پوزیشن پر کھڑی ہے۔
یہ فیکٹر بھی ذہن میں رکھیں کہ مولانا کی خیبر پختون خوا میں اہم سیاسی پاکٹس جنوبی اضلاع میں ہیں۔ وہاں لکی مروت، بنوں، ٹانک وغیرہ میں شدید عوامی ردعمل جاری ہے اور بعض جگہوں پر تو پولیس کا احتجاج فورسز کے خلاف چل رہا ہے۔
اتنے شدید احتجاجی عوامی موڈ میں اگر بنیادی حقوق کو چھیڑا جاتا اور فوجی عدالتوں میں سویلین ٹرائل کو جواز مل جائے تو مولانا کے لیے شدید سیاسی مشکلات پیدا ہوجاتیں۔
 ایک اور فیکٹر کی طرف جے یوآئی کے ارکان اسمبلی نے بھی اشارہ کیا کہ بنیادی حقوق سے متصادم کوئی بھی قانون سازی سپریم کورٹ فوراً اڑا دے گی کہ یہ آئین کی روح اور قرارداد مقاصد ہی کے خلاف ہے۔ انہیں لگا کہ اگر اس ترمیم کا عدالت نے جوڈیشل ریویو کیا تو ایسی صورت میں جے یوآئی کو سوائے ندامت کے کچھ نہیں ملے گا۔ اب تو انہوں نے صاف لفظوں میں کہا ہے کہ ہم نے پورے مسودے کو رد کر دیا ہے۔
 ایک سازشی تھیوری کا ویسے ہی ذکر کرتا چلوں کہ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ یہ ترمیم لانے والوں (یعنی حکومتی کیمپ) کے اندر بھی شاید مکمل اتحاد نہیں تھا اور ایک حلقہ اس ترمیم کی منظوری میں زیادہ دلچسپی نہیں رکھتا تھا۔

 اب آگے کیا ہوگا؟

 ذرائع یہی بتاتے ہیں کہ حکومتی کیمپ اس ترمیم کو منظور کرانے کا پورا ارادہ رکھتا ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف کی واپسی کے بعد اگلی موو ہوگی۔ بعض لوگ 30 ستمبر کی تاریخ دے رہے ہیں اور کہا جا رہا ہے کہ اکتوبر کے پہلے ہفتے تک ترمیم منظور کرانا ازحد ضروری ہو گیا ہے ورنہ خود اس پوری حکومتی سیٹ اپ اور اس کی افادیت پر سوالیہ نشان لگ جائے گا۔
 اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ حکومتی منصوبہ سازوں کی ناکامی سے انہیں خاصی شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

اگلے دو ہفتے پاکستانی سیاست کے لیے بہت اہم ہیں۔ اس میں بہت کچھ ادھر سے اُدھر ہونے کا امکان ہے۔ (فوٹو: اے پی پی)

سینیٹر فیصل واڈا نے لگی لپٹی رکھے بغیر کہہ دیا کہ یہ نکمے اور نالائق لوگ ہیں جن سے یہ ترمیم تک نہ ہوسکی۔ ایسی ناراضی اور ناخوشی ظاہر ہے دیگر جگہوں پر بھی ہوگی۔ اس لیے مولانا کو منانے کی کوشش جاری ہیں۔ اب مگر ایک نئے پلان کی ضرورت پڑے گی، جو مسودہ یا بقول بلاول بھٹو کچا ڈرافٹ خصوصی کمیٹی میں شیئر کیا گیا، اس میں سے بعض چیزیں بدلنا ہوں گی۔
 اس تاخیر سے یہ ہوا کہ وکلا تنظیمیں بھی حرکت میں آ گئی ہیں، حامد خان گروپ نے احتجاجی تحریک چلانے کا اعلان کر دیا ہے۔ پاکستان بارکونسل کے چھ ارکان سپریم کورٹ میں رٹ لے کر پہنچ گئے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ آئندہ مہینوں میں وکلا تنظیموں کے انتخابات چلیں گے، سپریم کورٹ بار وغیرہ کے۔ الیکشن کمپین کے دنوں میں وزیر قانون اعظم تارڑ کے حمایت یافتہ انڈیپنڈنٹ گروپ کے لیے بھی وکلا جذبات سے لاتعلق ہونا مشکل ہے۔
 خیر اگلے دو ہفتے پاکستانی سیاست کے لیے بہت اہم ہیں۔ اس میں بہت کچھ ادھر سے اُدھر ہونے کا امکان ہے۔ آئینی ترمیم کا منظور ہونا یا نہ ہونا بھی خاصے گہرے مضمرات کا باعث بنے گا۔

شیئر: