ضلع کرم میں قبائل کے درمیان فائرنگ تیسرے روز بھی جاری، کم سے کم 10 ہلاک
جولائی میں بھی قبائل کے درمیان جھڑپوں کے نتیجے میں 30 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ (فوٹو: اے ایف پی)
پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع کرم کے مختلف علاقوں میں قبائل کے درمیان فائرنگ تیسرے روز بھی جاری ہے جبکہ وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور نے تنازع کے پُرامن حل کے لیے فوری طور پر جرگہ منعقد کرنے کی ہدایت ہے۔
پولیس حکام کے مطابق فائرنگ کے تبادلے میں اب تک کم سے کم 10 افراد ہلاک اور 25 زخمی ہو گئے ہیں۔
بوشہرہ قبائل کی جانب سے احمد زئی قبائل کی اراضی میں مورچوں کی تعمیر کے تنازع پر جھڑپ شروع ہوئی تھی جو دیگر علاقوں تک پھیل گئی ہے۔
حکام کے مطابق دونوں قبائل کے درمیان بھاری اور خودکار ہتھیاروں کا استعمال کیا جا رہا ہے۔
جھڑپوں کے باعث ضلع میں آمدورفت کے تمام راستے بند ہو گئے ہیں جس کی وجہ سے مقامی افراد کو مشکلات کا سامنا ہے۔
ڈپٹی کمشنر جاوید اللہ محسود نے کہا ہے کہ ’جرگہ اور مذاکرات کے ذریعے تنازع کے حل کے لیے کوشش کی جا رہی ہے اور دونوں قبائل کے عمائدین سے ملاقات ہوئی ہے۔‘
22 ستمبر کو پاڑہ چنار میں مقامی افراد نے احتجاج کرتے ہوئے حکومت سے مطالبہ کیا تھا کہ قبائل کے درمیان تنازع کو روکا جائے۔
پاڑہ چنار سے قومی اسمبلی کے رکن انجینیئر حمید حسن کا کہنا ہے کہ قیام امن کے لیے حکومت اپنا کردار ادا کرے۔
انہوں نے کہا کہ اگر حالات یہی رہے تو احتجاجی تحریک شروع کریں گے۔
’عمائدین، ممبران قومی و صوبائی اسمبلی، اور قانون نافذ کرنے والے اداروں پر مشتمل جرگہ بلایا جائے‘
ضلع کرم میں امن و امان کے مسئلے پر وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور نے نوٹس لیتے ہوئے حکام کو جرگہ منعقد کرنے کی ہدایت کی ہے۔
وزیراعلیٰ کی ہدایت پر محکمہ داخلہ و قبائلی امور نے کمشنر کوہاٹ اور آر پی او کوہاٹ کو مراسلہ ارسال کر دیا۔
مراسلے میں کہا گیا ہے کہ یہ مسائل جرگوں اور قانون نافذ کرنے والوں اداروں کی کارروائیوں سے وقتی طور پر حل کیے جا رہے ہیں۔
’مسئلے کے مستقل حل کے لیے علاقے کے عمائدین، ممبران قومی و صوبائی اسمبلی، منتخب بلدیاتی نمائندوں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں پر مشتمل جرگہ بلایا جائے۔‘
جولائی میں ضلع کرم میں پانچ دن تک زمین کے تنازع پر جاری رہنے والی لڑائی کے بعد متحارب قبیلے جنگ بندی پر رضامند ہو گئے تھے۔
پانچ دن تک جاری رہنے والی جھڑپوں میں 30 افراد ہلاک جبکہ 158 زخمی ہوئے تھے۔