Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

خیبر پختونخوا کے ضلع بنوں میں سرگرم مسلح افراد کون ہیں؟

بنوں کے مقامی لوگوں کے مطابق مسلح گروپوں میں شدت پسند اور جرائم پیشہ افراد موجود ہیں۔ (فوٹو: اے ایف پی)
خیبر پختونخوا کے ضلع بنوں میں وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور کی ہدایت کے بعد پولیس نے مسلح افراد اور تنظیموں کے دفاتر پر چھاپے مار کر درجنوں افراد گرفتار کر لیا ہے۔
بنوں میں امن پاسون کے دھرنے کے بعد حالات یکسر تبدیل ہونے لگے۔
ایک جانب امن کمیٹی سے وزیراعلیٰ علی امین گنڈا پور نے مذاکرات کی اور ان کے مطالبات کو منظور کرنے کی یقین دہانی کرائی تو دوسری جانب وزیراعلیٰ کی ہدایت پر بنوں میں مسلح تنظیموں  کے خلاف کارروائی کا آغاز ہوا۔
شدت پسند گروپوں کے خلاف کریک ڈاؤن پولیس کی جانب سے شروع کیا گیا ہے جس میں اب تک مختلف تنظیموں کے 20 سے زائد کارندے گرفتار کیے گئے ہیں جبکہ متعدد ٹھکانے سیل کے گئے ہیں۔
بنوں پولیس کے ترجمان کے مطابق پولیس نے بنوں اوقاف کالونی، احمد خان بازار، نیظم بازار، ٹاون، تبلیغ مرکز اور مسلم آباد میں ایلیٹ فورس کے ہمراہ چھاپے مارے جہاں سے گرفتاریاں بھی ہوئیں۔
ڈی پی او بنوں کا ایک بیان میں کہنا تھا کہ مسلح گروپ اور شدت پسند عناصر کے خلاف کارروائی جاری ہے۔ ’گرفتار مسلح گروپوں سے اسلحہ بھی برامد کیا گیا تاہم ان کارروائیوں سے متعلق تفصیلات آپریشن کے مکمل ہوتے ہی میڈیا کو جاری کی جائیں گی۔‘
ایپکس کمیٹی کا اجلاس اور اعلامیہ
پشاور میں جمعرات کو ایپکس کمیٹی کا اجلاس ہوا جس کے اعلامیے میں کہا گیا ’دہشت گردی ہر صورت قابل مذمت ہے، اس کے خلاف کارروائی ہوگی۔‘
اعلامیے میں مزید کہا گیا کہ ’بنوں واقعے کی جوڈیشل انکوائری کے لیے عدلیہ کو درخواست دی جائے گی۔  طورخم، خرلاچی ، انگور اڈہ، غلام خان سمیت باجوڑ و مہمند کے روایتی بارڈرز پر بھی تجارت کی اجازت دی جائے۔ اس سلسلے میں کیس وفاقی حکومت کے پاس ہے۔ اس سے مقامی افراد کو روزگار ملے گا اور سمگلنگ کی حوصلہ شکنی ہوگی۔‘
ہر کمشنر کی سطح پر کمیٹیاں مقرر ہوں گی جن میں عوامی نمائندے، سول، عسکری اور پولیس کے نمائندے ہوں گے۔  کسی بھی ناخوشگوار واقعے یا مسئلے پر فوری جرگہ بلائیں گے اور قابل عمل حل نکالیں گے۔‘
اس کے بعد وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کے مشیر اطلاعات بیرسٹر سیف نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ بنوں جرگے کی جانب سے شرائط پیش کی گئیں جو کہ وزیراعلیٰ کے سامنے لائی گئیں۔ بنوں جرگے نے 16 نکات پیش کیے، جو کہ پورے صوبے کے حوالے سے تھے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’آئندہ چند دنوں میں ایپکس کمیٹی کے فیصلوں پر عملدرآمد شروع ہو جائے گا۔ عزم استحکامِ آپریشن سے متعلق پروپیگنڈا کیا گیا جس کے بعد آج ایپکس کمیٹی میں واضح ہوگیا کہ کوئی نیا آپریشن نہیں۔‘
مشیر اطلاعات کے مطابق ’ملک و ریاست کے خلاف پروپیگنڈا کرنے والوں، ہنڈی حوالہ، منیشات فروشوں کے خلاف کارروائیاں ہوں گی۔‘
’صوبائی و مرکزی ایپکس کمیٹیوں کا دائرۂ کار نچلی سطح تک پھیلایا جائے گا۔‘

صوبائی وزیر قانون کا موقف

خیبرپختونخوا کے صوبائی وزیر قانون آفتاب عالم نے اردو نیوز کو بتایا کہ بنوں میں امن کے قیام کے لیے وزیراعلیٰ نے سخت اقدامات کی ہدایت کی ہے۔
’پولیس کو حالات کنٹرول کرنے کے لیے مکمل اختیار دے دیا گیا ہے۔ جہاں شرپسند عناصر موجود ہوں گے ان کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔‘
انہوں نے کہا کہ کسی مسلح گروپ کو عوام کے جان و مال کو نقصان پہنچانے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔

کچھ گروپ اتنے بااثر تھے کہ پولیس بھی ان پر ہاتھ ڈالنے سے کترا رہی تھی۔ (فوٹو: اے ایف پی)

’صوبے میں قانون کی عملداری قائم ہے۔ تمام مسلح گروہوں کے خلاف بلاتفریق کارروائی کا حکم دیا گیا ہے۔‘ 

بنوں میں گشت کرنے والے مسلح افراد کون ہیں؟

خیبرپختونخوا کے حالات پر گہری نظر رکھنے والے پشاور کے سینیئر صحافی شمیم شاہد کی رائے ہے کہ یہ مسلح گروپ ماضی میں کالعدم ٹی ٹی پی کا حصہ رہ چکے ہیں، مگر ان کو گڈ طالبان کہا جاتا ہے۔  
’یہ گروپس الگ طریقے سے کارروائیاں کرتے ہیں۔ یہ ٹارگٹ کلنگ اور بھتہ خوری میں ملوث پائے گئے ہیں۔‘
شمیم شاہد نے دعویٰ کیا کہ  کچھ مسلح تنظیموں کو طاقت ور حلقوں کی پشت پناہی حاصل رہی ہے اسی لیے شہر میں ان کے دفاتر قائم ہوئے تھے۔
’بنوں کے عوام نے ان گروپوں سے تنگ آکر انہیں بے نقاب کیا اور ان کے خلاف زبردست مزاحمت دکھائی۔‘
 ان کا مزید کہنا تھا کہ صوبے میں ایسے تمام گروپوں کے خلاف سخت کارروائی ہونی چاہیے تاکہ امن کا قیام ممکن ہوسکے۔
بنوں کے مقامی لوگوں کے مطابق مسلح گروپوں میں شدت پسند اور جرائم پیشہ افراد موجود ہیں جو مختلف نام سے تنظیم بنا کر ضلع میں فعال تھے۔

شمیم شاہد نے دعویٰ کیا کہ  کچھ مسلح تنظیموں کو طاقت ور حلقوں کی پشت پناہی حاصل رہی ہے۔ (سکرین گریب)

ان کے مطابق کچھ گروپ اتنے بااثر تھے کہ پولیس بھی ان پر ہاتھ ڈالنے سے کترا رہی تھی تاہم اب عوامی دباؤ کی وجہ سے کارروائی کا آغاز ہوگیا ہے۔

مسلح گروپوں سے متعلق وزیراعلیٰ علی امین گنڈا پور کا موقف

وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا نے بنوں واقعہ کے بعد 21 جولائی کو اپنے ویڈیو بیان میں کہا تھا کہ کچھ مسلح لوگ اپنے آپ کو سرکاری ادارے کا اہلکار ظاہر کرکے سرکاری و غیر سرکاری معاملات میں مداخلت کررہے ہیں جن پر حکومت، پولیس اور عوام کو تحفظات ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پہلے اپیکس کمیٹی کے اجلاس میں اس بات کا ذکر کیا تھا۔
وزیراعلیٰ نے کہا تھا کہ ’میں آج اعلان کرتا ہوں اور پولیس کو حکم دیتا ہوں کہ جہاں ایسے مسلح گروپ موجود ہے اس کے خلاف کارروائی کرکے گرفتار کیا جائے۔‘
واضح رہے کہ بنوں میں بدامنی اور دہشت گردی کے خلاف امن دھرنے کے شرکا کے مطالبات میں تمام مسلح گروپوں کے خاتمے کا مطالبہ بھی شامل ہے۔

شیئر: