Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’ہم خوفزدہ ہیں‘، عمرکوٹ میں مقتول ڈاکٹر شاہنواز کے اہل خانہ کا انصاف کا مطالبہ

ڈاکٹر شاہنواز عمرکوٹ کے مقامی ہسپتال میں خدمات سرانجام دے رہے تھے۔ (فوٹو: سوشل میڈیا)
صوبہ سندھ کے شہر عمرکوٹ میں توہین مذہب کے الزام کا سامنا کرنے والے مقامی ہسپتال کے ڈاکٹر شاہنواز کنبہار کے اہل خانہ نے کہا ہے کہ ان کو پولیس کی حراست میں اس وقت قتل کیا گیا جب انہوں نے رضاکارانہ طور پر خود کو پولیس کے حوالے کر دیا تھا۔
خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق شاہنواز کے اہل خانہ نے پولیس کے اس بیان کو مسترد کیا کہ حادثاتی طور پر فائرنگ کے تبادلے میں ان کی ہلاکت ہوئی۔
اگر واقعی میں ایسا ہے تو یہ ایک ہفتے میں دوسرا ماورائے عدالت قتل ہو گا، جس کی انسانی حقوق کی تنظیموں کی جانب سے مذمت کی جا رہی ہے۔
ڈاکٹر شاہنواز کنبہار پر فیس بک پر توہین مذہب کا مواد شیئر کرنے کا الزام تھا جس کے بارے میں انہوں نے کہا تھا کہ ان کا فیس بک اکاؤنٹ کسی نے ہیک کر لیا ہے اور انہوں نے ایسی کوئی پوسٹ نہیں کی۔
ڈاکٹر شاہنواز کے اہل خانہ کا کہنا ہے کہ ان کو بدھ کے دن گرفتار کیا گیا تھا اور اس کے چند ہی گھنٹے بعد جعلی پولیس مقابلے میں قتل گیا۔ بدھ ہی کو مشتعل ہجوم نے ان کا کلینک بھی نذرآتش کیا۔
پولیس کا کہنا تھا کہ ڈاکٹر شاہنواز کو غیرارادی طور پر اس وقت مارا گیا جب میرپور خاص میں افسران نے موٹر سائیکل پر سوار دو افراد کو رُکنے کا اشارہ کیا۔
ڈاکٹر شاہنواز کی والدہ رحمت کنبہار نے کہا کہ ’وہ اپنے بیٹے کے لیے انصاف چاہتی ہیں جو پولیس کی حراست کے دوران مارا گیا۔ ہم نے تفتیش کا سامنا کرنے کا کہا اور پولیس نے ہمیں یقین دہانی کروائی کہ میرے بیٹے کو تحفظ دیا جائے گا۔ مجھے نہیں معلوم تھا کہ پولیس شاہنواز کو قتل کر دے گی۔‘
رحمت کنبہار کا کہنا تھا کہ ان کے بیٹے کی گرفتاری کے بعد بھی فیس بک پر پوسٹس کا سلسلہ جاری تھا جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اسے کسی نے ہیک کر لیا ہے۔
ڈاکٹر شاہنواز کے والد محمد صالح نے کہا کہ ہجوم نے ان کے بیٹے کی لاش چھین کر ان کے سامنے نذر آتش کر دی۔
’انہوں نے میرے بیٹے کے جسم پر پیٹرول چھڑک کر جلا دیا اور میں بے بسی سے دیکھتا رہا۔‘
پولیس نے بتایا کہ لاش لینے اور جلانے کے الزام میں 9 افراد کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔
’افسران 100 سے زائد افراد کی گرفتاری کی کوشش کر رہے ہیں‘
کیس کی تفتیش کرنے والے ایک پولیس اہلکار نور محمد نے کہا کہ افسران 100 سے زائد افراد کی گرفتاری کی کوشش کر رہے ہیں جو ڈاکٹر شاہنواز کی گرفتاری سے قبل اور بعد میں ہونے والے تشدد میں ملوث تھے۔
جمعے کو حکام نے ان پولیس اہلکاروں کو معطل کر دیا جنہوں نے ڈاکٹر شاہنواز پر فائرنگ کی اور انہیں مار دیا۔
سول سوسائٹی کے ارکان نے جمعرات کو شاہنواز کے گاؤں کا دورہ کیا اور ان کے اہل خانہ سے ملاقات کی۔
شاہنواز کی بیوہ نعمت بی بی نے کہا کہ ’ہم خوفزدہ ہیں اور اپنے بچوں کو سکول نہیں بھیج سکتے۔‘
شاہنواز کے قتل سے ایک ہفتہ قبل کوئٹہ میں توہین مذہب کے الزام میں زیر حراست ایک ملزم کو پولیس اہلکار نے تھانے میں فائرنگ کر کے قتل کر دیا تھا۔

شیئر: