Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سپریم کورٹ کا فیصلہ: کیا حکومت کا ’پلان بی‘ بھی مشکلات کا شکار ہے؟

وزیر قانون کا کہنا ہے کہ پارلیمنٹ کا قانون جب تک موجود ہے اسی پر عمل درآمد ہونا چاہیے۔ (فوٹو: روئٹرز)
پاکستان میں سیاسی مبصرین کے مطابق گذشتہ دو سالوں سے جاری سیاسی ’دھینگا مشتی‘ اب اپنے آخری دور میں داخل ہو چکی ہے۔
ایک طرف فوج اپنے ہی ریٹائرڈ جنرل فیض حمید کا کورٹ مارشل کر رہی ہے تو دوسری طرف حکومت عدلیہ سے ہونے والی مزاحمت پر اپنی صف بندی کر چکی ہے۔
تاہم اس صف بندی کو گذشتہ ہفتے اس وقت شدید دھچکہ لگا جب مولانا فضل الرحمن کی حمایت حاصل نہ ملنے پر حکومت کو مجوزہ آئینی ترمیمی بل کو موخر کرنا پڑا۔
مولانا سے حمایت نہ ملنے پر سپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق نے نئے قوانین کے تحت اسمبلی میں سیاسی جماعتوں کی نئی فہرست جاری کر دی جس میں سے تحریک انصاف کو حذف کر دیا گیا جو کہ سپریم کورٹ کے ایک فیصلے کی روشنی میں شامل کیا گیا تھا۔ مولانا سے معاملات کھٹائی میں پڑنے کے بعد ن لیگ اور پیپلزپارٹی کے رہنما یہ کہتے دکھائی دیے ’گیم ابھی آن‘ ہے۔ اور ترامیم ضرور منظور ہوں گی چاہے مولانا ساتھ دیں یا نہ دیں۔
خود بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ مولانا ساتھ شامل نہ ہو کر صرف اپنی تجاویز دینے سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے جو کہ دوسری صورت میں اس آئینی پیکج کا حصہ ہو سکتی ہیں۔
تو حکومت اور اس کے نام نہاد اتحادیوں کے پاس ایسا کیا پلان ہے جو وہ ابھی بھی آئینی ترمیم کے لیے پر آمید ہیں؟ کیا سپریم کورٹ کے تفصیلی فیصلے کے بعد سپیکر کے بھیجے گئے خط پر اب الیکشن کمیشن کس طرف کھڑا ہوگا؟
اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ کا کہنا تھا کہ ’ہم ابھی بھی اپنے اس موقف پر قائم ہیں کہ اس آئینی ترمیم سے ہی راستہ نکلے گا۔ اور ابھی کچھ بھی بند نہیں ہوا۔ ہم تمام سیاسی جماعتوں کو انگیج کر رہے ہیں۔‘
جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا سپیکر کے خط کے ذریعے سیٹیں لینے کا فیصلہ ہی اصل میں حکومت کا ’پلان بی‘ تھا؟ تو ان کا کہنا تھا کہ ’سیاسی کھیل میں یہ ہوتا رہتا ہے کہ آپ ایک صورت حال سامنے رکھتے ہیں اور آپ کے مخالف بھی اس کا جواب دیتے ہیں میں یہ نہیں کہوں گا کہ کوئی پلان بی الگ سے ہے لیکن حکومت ہر طرح کے حالات کے لیے تیار ہے۔‘

اعظم نذیر تارڑ کا کہنا ہے کہ ہم ابھی بھی اس موقف پر قائم ہیں کہ اس آئینی ترمیم سے ہی راستہ نکلے گا۔ (فوٹو: اے پی پی)

’ہماری پوزیشن بالکل واضع ہے اور سپیکر صاحب کی بھی، ہم اس سے پیچھے نہیں ہٹ رہے۔ کیونکہ پارلیمنٹ کا قانون جب تک موجود ہے اسی پر عمل درآمد ہونا چاہیے۔‘
حکومت کے ممکنہ پلان پر تبصرہ کرتے ہوئے سیاسی تجزیہ کار سلمان غنی کا کہنا ہے کہ ’سپریم کورٹ کے فیصلے سے حکومت کو شدید دھچکا لگا ہے۔ اور اب اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ کون سا پلان کام کرے گا۔ اب تو سپریم کورٹ نے انتخابی عمل پر براہ راست سوال اٹھا دیا ہے جو کہ میرے خیال میں کسی بھی دوسری صورت حال سے زیادہ اہم بات ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’مجھے تو اب حکومت مشکلات کا شکار دکھائی دیتی ہے۔ ترمیم کا ہتھیار ہی سب سے بڑا تھا جو خود ان کی اپنی حکمت عملی سے اپنی آخری سانسیں لے رہا ہے۔ سپیکر اور سپریم کورٹ کی لڑائی میں قانونی فتح سپریم کورٹ کی ہی ہو گی کوئی اور چارہ نہیں ہے۔اگر کوئی پلان بی تھا تو یہی پلان تھا۔ اور اس میں کوئی جان نہیں۔‘
انہوں نے اشارہ کیا کہ ’پیپلزپارٹی کے پنجاب میں گورنر کے بیانات کو ملا کر دیکھا جائے جو کہ حکومت اور ججوں کی لڑائی میں ججوں کے حامی دکھائی دے رہے ہیں تو اس سے بھی واضع ہوتا ہے کہ حکومت جن پر تکیہ کر رہی ہے وہ کیا سوچ رہے ہیں۔‘

وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ حکومت ہر طرح کے حالات کے لیے تیار ہے۔ (فوٹو: اے پی پی)

خیال رہے کہ گورنر پنجاب سردار سلیم حیدر خان نے حالیہ دنوں میں وزیراعلی مریم نواز پر پنجاب کی یونیورسٹیوں کے وائس چالنسلرز لگانے کے لیے بھیجی گئی سمریوں کو غیر شفاف قرار دینے کے ساتھ سپریم کورٹ میں کچھ ججز کی حمایت اور کچھ کی مخالفت کا الزام لگاتے ہوئے وزیر اعظم شہباز شریف پر بھی تنقید کی ہے۔
تو کیا حکومت اس چومکھی لڑائی میں مزید حربے بھی آزما سکتی ہے؟ اس بات پر سینیئر صحافی اجمل جامی کہتے ہیں کہ ’ابھی تو وار ججوں کی طرف سے آیا ہے۔ اور فیصلے کی تلخی یہ بتا رہی ہے کہ اس طرح کا فیصلہ خود حکومت چاہ رہی تھی مطلب عدالتی اصلاحات کے حوالے سے جو کچھ پٹاری میں تھا، وہ باہر نکل آیا جس نے کئی ججوں کو ناراض کیا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ادھر سے کیا آتا ہے۔ ویسے تو فیض حمید کی گرفتاری کے بعد ہونے والے تمام بڑے واقعات میں حکومت کا پلان بظاہر بھاری تھا لیکن اب ایک مرتبہ پھر حکومت کو کھڑے ہو کر اپنی صفوں کا جائزہ لینا پڑا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’ہمیں یہ تو نہیں پتا کہ پلان بی اصل والا کون سا ہے لیکن حکومت کچھ چالیں صرف سموک سکرین کے لیے بھی کر رہی ہے۔ توجہ اور طرف کروا کر معاملات اور طرح سے بھی چلائے جا رہے ہیں۔‘

شیئر: