کیا آئی ایم ایف کا موجودہ پروگرام پاکستان کے لیے آخری ثابت ہو سکتا ہے؟
کیا آئی ایم ایف کا موجودہ پروگرام پاکستان کے لیے آخری ثابت ہو سکتا ہے؟
جمعرات 26 ستمبر 2024 10:47
بشیر چوہدری، اردو نیوز۔ اسلام آباد
آئی ایم ایف کے مطابق پاکستان کو ایک ارب ڈالر کی پہلی قسط جاری کر دی گئی ہے (فوٹو: روئٹرز)
بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے پاکستان کے لیے سات ارب ڈالر کے بیل آؤٹ پیکیج کی منظوری دیتے ہوئے قرار دیا ہے کہ مہنگائی میں نمایاں کمی کے باوجود پاکستان کو کمزور حکمرانی سمیت دیگر بڑے چیلنجز کا سامنا ہے۔
جمعرات کو آئی ایم ایف نے ایگزیکٹو بورڈ کی طرف سے پاکستان کے ایکسٹینڈڈ فنڈ پروگرام کی منظوری کا اعلامیہ جاری کیا جس میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان کو ایک ارب ڈالر کی پہلی قسط جاری کر دی گئی ہے۔
اعلامیے کے مطابق مشکل کاروباری ماحول، کمزور حکمرانی اور ریاست کا زیادہ عمل دخل سرمایہ کاری میں رکاوٹ بنتے ہیں۔ ٹیکس بیس تنگ ہونے کی وجہ سے مالیاتی پائیداری، سماجی اور ترقیاتی اخراجات پورا کرنا مشکل ہے۔
اعلامیے میں مزید کہا گیا ہے کہ غربت سے مستقل نجات کے لیے صحت اور تعلیم پر خرچ ناکافی ہے۔ بنیادی ڈھانچے میں ناکافی سرمایہ کاری نے معاشی صلاحیت کو محدود کر دیا ہے۔
اس حوالے سے نجی چینل جیو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے وزیر خزانہ محمد اورنگزیب کا کہنا تھا کہ ’پاکستان کے لیے آئی ایم ایف کا پروگرام اگلے تین سال کا ہے۔ آئی ایم ایف پروگرام کا مقصد میکرو اکنامک استحکام حاصل کرنا ہے۔ میکرو اکنامک استحکام آئے گا تو اس بنیاد پر ہی عمارت کھڑی ہوگی۔‘
وزیر خزانہ نے کہا کہ ’آئی ایم ایف کے اس پروگرام کو آخری پروگرام بنانا ہے تو ڈھانچہ جاتی اصلاحات کرنا ہوں گی، ہمیں ماضی کو بھول کر مثبت انداز میں آگے بڑھنا چاہیے۔‘
ماہرین کے مطابق آئی ایم پروگرام کو مکمل کرنے اور اسے آخری پروگرام بنانے کے لیے بہت زیادہ محنت، پالیسی سازی، اصلاحات اور ان پر عملدرآمد بہت ضروری ہے۔ 37 ماہ میں پاکستان اگر اپنی معاشی پالیسیوں کو بہتر نہیں بناتا اور معاشی استحکام نہیں آتا تو ہمیں نئے پروگرام کی طرف بھی جانا پڑ سکتا ہے جو ملک کے لیے کسی طور اچھا نہیں ہوگا۔
اُردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے سابق مشیر خزانہ ڈاکٹر سلمان شاہ نے کہا کہ ’ابھی تک حکومت کی جانب سے آئی ایم ایف کے پروگرام کی روشنی میں مستقل کا کوئی لائحہ عمل یا روڈ میپ نظر نہیں آ رہا۔‘
انہوں نے کہا کہ ’اکثر و بیشتر حکومت کی جانب سے کمیٹیاں بنائی جاتی ہیں۔ ماہرین کو بلاتے ہیں اور اپنے اغراض و مقاصد بتاتے ہیں ان سے آراء لیتے ہیں اور پھر یہ سلسلہ آگے نہیں بڑھ پاتا۔‘
سابق مشیر خزانہ ڈاکٹر سلمان شاہ نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ کفایت شعاری اور حکومتی اخراجات کم کرنے کے لیے قیصر بنگالی کی سربراہی میں جو کمیٹی بنائی گئی تھی وہ اچھا اقدام تھا اور اسے مکمل ہونا چاہیے تھا۔
’لیکن قیصر بنگالی یہ کہہ کر مستعفی ہوگئے کہ حکومت اس معاملے میں سنجیدہ ہی نہیں ہے۔ یہ صورت حال اچھی نہیں ہے اور اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ حکومت دعوے تو کچھ اور کرتی ہے لیکن عملی طور پر کچھ کرنا نہیں چاہتی یا کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتی۔‘
ایک سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ ’ہم آئی ایم ایف کے ساتھ اب تک 24 پروگرام کر چکے ہیں اور جب بھی وہ پروگرام کی منظوری دیتے ہیں پاکستان کی معاشی پالیسیوں کی تعریف کرتے ہیں کیونکہ اگر وہ تعریف نہ کریں تو پروگرام کیسے منظور کریں؟‘
ڈاکٹر سلمان شاہ سمجھتے ہیں کہ آئی ایم ایف کے اس پروگرام کو آخری پروگرام بنانے کا انحصار حکومتی پالیسیوں پر ہے۔اگر وہ پالیسیاں بنا کر بھی ان پر عملدرآمد نہیں کرتے تو یہ مشکل ہو جائے گا۔
’اصلاحات اگرچہ پہلا قدم ہیں لیکن ان سے بہت آگے جانے کی ضرورت ہے۔ حکومت کو نجکاری کرنا ہوگی کیونکہ اس حوالے سے ہم نے آئی ایم ایف سے بات چیت کی ہوئی جبکہ بجلی، توانائی کے نظام کو بہتر کرنا ہوگا اور حکومتی اخراجات کو قابو میں لانے کے لیے اقدامات کرنا ہوں گے۔ اگر ایسا کرنے میں کامیابی مل جائے تو یہ پروگرام آخری ہوسکتا ہے۔‘
اس حوالے سے وزیر خزانہ محمد اورنگزیب کا کہنا ہے کہ ’ آئی ایم ایف کے اس پروگرام کو آخری پروگرام بنانا ہے تو ڈھانچہ جاتی اصلاحات کرنا ہوں گی، ہمیں ماضی کو بھول کر مثبت انداز میں آگے بڑھنا چاہیے۔‘
وزیر خزانہ نے کہا کہ ’ہم ڈھانچہ جاتی اصلاحات کے لیے پُرعزم ہیں، ٹیکس ہو یا توانائی، پرائیویٹائزیشن ہو یا سرکاری کمپنیاں ہوں، ہم اس پر عمل کیلئے پُرعزم ہیں۔‘
معاشی ماہر ندیم الحق کا کہنا ہے کہ موجودہ حکومت ہی نہیں بلکہ 75 سال سے کسی حکومت کے پاس آئی ایم ایف پروگرام سے پیسے ملنے کے بعد مستقبل کا کوئی لائحہ عمل موجود نہیں ہوتا۔
’ابھی بھی کوئی ایسی پالیسی نظر نہیں آتی جو موجودہ آئی ایم ایف پروگرام کو آخری پروگرام بنانے کے آثار ملتے ہوں۔‘
اُردو نیوز سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ’حکومتوں کے پاس مزید ٹیکس لگانے، قرضے لینے اور قرضے لے کر میگا پروجیکٹس لگانے جیسی سوچ تو موجود ہے لیکن چلتے پھرتے کئی سیکٹرز کو بند کر دیا ہے اس پر کوئی غور نہیں کر رہا۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’اگر لوگ ریئل اسٹیٹ میں پیسے لگا رہے تھے کیا نقصان ہو رہا تھا کہ لوگوں کو بنے بنائے مکانات مل رہے تھے یا کاروباری مراکز بن رہے تھے لیکن ٹیکسوں کی بھرمار کرکے اس کو بھی بند کر دیا ہے۔‘