مخصوص نشستوں کا فیصلہ، الیکشن کمیشن کا پھر سے سپریم کورٹ سے رجوع
مخصوص نشستوں کا فیصلہ، الیکشن کمیشن کا پھر سے سپریم کورٹ سے رجوع
جمعرات 26 ستمبر 2024 13:13
اعلامیے کے مطابق تفصیلی فیصلہ آنے کے بعد درخواست میں اضافی وجوہات شامل کی ہیں (فوٹو: روئٹرز)
پاکستان کے الیکشن کمیشن نے تحریک انصاف کو مخصوص نشستیں دینے کے تفصیلی فیصلے کے بعد سپریم کورٹ میں پہلے سے دائر نظرثانی میں ترمیم کرنے کی متفرق درخواست دائر کی ہے۔
جمعرات کو الیکشن کمیشن نے اپنے ایک اعلامیے میں بتایا ہے کہ سپریم کورٹ کے مختصر حکمنامے اور وضاحتی فیصلے کے کچھ نکات پر نظرثانی درخواست دائر کی تھی اور اب تفصیلی فیصلہ آنے کے بعد اس میں ترمیم کر کے کچھ اضافی وجوہات شامل کی ہیں۔
اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ ’سپریم کورٹ کے مخصوص نشستوں کے تفصیلی حکم اور پارلیمنٹ کی طرف سے الیکشن ایکٹ میں ترمیم کے بعد کی صورتحال پر الیکشن کمیشن گزشتہ چند روز سے غور کر رہا تھا جس کے نتیجے میں پہلے سے دائر شدہ نظر ثانی درخواست میں اضافی وجوہات شامل کی گئی ہیں۔‘
الیکشن کمیشن نے بتایا ہے کہ اس نے سپریم کورٹ سے اس کے حکم اور پارلیمنٹ کی قانون سازی میں سے کسی ایک پر عمل کرنے کے متعلق استفسار کے لیے درخواست درج کی ہے۔
’سپریم کورٹ کے حکم اور بعد میں پارلیمنٹ کے منظور شدہ قانون کی روشنی میں کمیشن کو کس پر عمل کرنا ہو گا اس حوالے سے سپریم کورٹ میں درخواست داخل کی گئی ہے۔‘
قبل ازیں سپریم کورٹ نے پارلیمنٹ میں مخصوص نشستوں کے حوالے سے دائر درخواستوں کا تفصیلی فیصلہ جاری کرتے ہوئے تحریک انصاف کو ان مخصوص نشستوں کا حقدار قرار دیا تھا۔
سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن کے یکم مارچ 2024 کے فیصلے کو آئین اور قانون سے متصادم قرار دیا اور کہا کہ ’الیکشن کمیشن آٹھ فروری 24 کے انتخابات میں اپنا کردار ادا کرنے میں ناکام رہا ہے۔‘
سپریم کورٹ کے 8 ججز نے مخصوص نشستوں کے کیس کا تفصیلی تحریری فیصلہ جاری کیا۔ 70 صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلہ جسٹس منصور علی شاہ نے تحریر کیا تھا۔
تحریری فیصلے میں پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کو کالعدم قرار دیتے ہوئے کہا گیا تھا کہ ’الیکشن کمیشن کا یکم مارچ کا فیصلہ آئین سے متصادم ہے اور اس کی کوئی قانونی حیثیت نہیں۔‘
فیصلے میں کہا گیا کہ ’الیکشن میں بڑا سٹیک عوام کا ہوتا ہے۔ انتخابی تنازع بنیادی طور پر دیگر سول تنازعات سے مختلف ہوتا ہے۔ اس بات کو سمجھنے کی کوشش کی گئی کہ پارلیمانی جمہوریت میں جو سیاسی جماعتوں کے نظام پر مبنی ہے اتنے آزاد امیدوار کس طرح کامیاب ہو سکتے ہیں؟‘
عدالت نے کہا کہ ’اس سوال کا کوئی تسلّی بخش جواب نہیں دیا گیا۔ پاکستان تحریک انصاف نے دعویٰ کیا کہ آزاد امیدوار دراصل پی ٹی آئی کے اُمیدوار تھے اور ووٹرز نے انہیں پی ٹی آئی کے اُمیدوار ہونے کی وجہ سے ووٹ دیا۔‘
سپریم کورٹ نے مختصر فیصلے میں پی ٹی آئی کو ریلیف دینے کے معاملے پر وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ’پی ٹی آئی ایک سیاسی جماعت ہے اور پی ٹی آئی کی کیس میں فریق بننے کی درخواست ہمارے سامنے موجود تھی۔‘
عدالت نے کہا کہ عمومی طور پر فریق بننے کی درخواست پر پہلے فیصلہ کیا جاتا ہے، تاہم عدالت نے متعدد مقدمات میں کہا ہے کہ مکمل انصاف کرتے ہوئے عدالت تکنیکی اصولوں کی پابند نہیں ہوتی۔
فیصلے میں کہا گیا کہ ’بھاری دل سے بتاتے ہیں کہ دو ساتھی ججز، جسٹس امین الدین اور جسٹس نعیم افغان نے ہمارے فیصلے سے اتفاق نہیں کیا۔ ساتھی ججز کے 3 اگست کے اختلافی نوٹ کو سپریم کورٹ کے ججز کے حوالے سے مناسب نہیں سمجھا گیا۔‘
عدالت کا کہنا تھا کہ ’ان ججز نے کہا کہ ‘ہمارا فیصلہ آئین کے مطابق نہیں ہے۔ جسٹس امین الدین اور جسٹس نعیم افغان کا عمل سپریم کورٹ کے ججز کے منصب کے منافی ہے۔‘
عدالت نے الیکشن کمیشن کے رویّے پر بھی حیرانی کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ الیکشن کمیشن اس کیس میں ایک بنیادی فریق مخالف کے طور پر لڑتا رہا حالانکہ اس کا بنیادی کام صاف و شفاف انتخابات کا انعقاد ہے۔
سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف پاکستان کی حکمران جماعت مسلم لیگ نواز نے بھی نظرثانی کی درخواست دائر کر رکھی ہے۔
درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ سپریم کورٹ تحریک انصاف کو مخصوص نشستیں دینے کے فیصلے پر نظرثانی کرے کیونکہ اس جماعت نے ان نشستوں کے حصول کی استدعا ہی نہیں کی۔
درخواست میں کہا گیا ہے کہ سنی اتحاد کونسل اور تحریک اںصاف دو الگ سیاسی جماعتیں ہیں اور آزاد امیدوار پہلے ہی سنی اتحاد کونسل میں شامل ہو چکے ہیں۔