سپیکر کا الیکشن کمیشن کو خط، کیا تحریک انصاف کو مخصوص نشستیں مل پائیں گی؟
سپیکر کا الیکشن کمیشن کو خط، کیا تحریک انصاف کو مخصوص نشستیں مل پائیں گی؟
جمعرات 19 ستمبر 2024 15:55
بشیر چوہدری، اردو نیوز۔ اسلام آباد
خط میں لکھا گیا کہ الیکشن ایکٹ میں ترمیم کے بعد مخصوص نشستیں تبدیل نہیں کی جاسکتیں (فوٹو: اے ایف پی)
مخصوص نشستوں کی الاٹمنٹ کے حوالے سے سپیکر قومی اسمبلی اور سپیکر پنجاب اسمبلی نے چیف الیکشن کمشنر کو خطوط لکھے ہیں جن میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ ترمیم شدہ الیکشن ایکٹ کے تحت مخصوص نشستیں الاٹ کی جائیں۔
جمعرات کو سپیکر قومی اسمبلی اور سپیکر پنجاب اسمبلی کی جانب سے الیکشن کمیشن آف پاکستان کو لکھے گئے خطوط میں کہا گیا ہے کہ الیکشن ایکٹ میں ترمیم کے بعد مخصوص نشستیں تبدیل نہیں کی جاسکتیں، الیکشن ایکٹ میں ترمیم کے بعد سپریم کورٹ کے فیصلے پر عمل درآمد نہیں ہوسکتا۔
یہ خطوط ایسے وقت میں لکھے گئے ہیں جب الیکشن کمیشن مسلسل تین روز سے اعلی سطح کا اجلاس منعقد کر رہا ہے جس میں سپریم کورٹ کے 12 جولائی کے مخصوص نشستوں کے حوالے سے فیصلے پر عمل درآمد اور اس سلسلے میں الیکشن کمیشن کی جانب سے سپریم کورٹ سے فیصلے کی وضاحت سے متعلق دائر کی گئی درخواست کے جواب میں سپریم کورٹ کے 8 ججوں کی وضاحت پر غور و خوض کیا جا رہا ہے۔
سپیکر قومی اسمبلی کے خط نے اس صورتحال کو ایک نیا رخ دے دیا ہے۔
وفاقی وزیر اطلاعات عطاءاللہ تارڑ نے میڈیا سے گفتگو میں سپیکر کے خط کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق نے پارلیمان کی بالادستی کے لیے چیف الیکشن کمشنر کو خط لکھا۔ سپیکر قومی اسمبلی کا الیکشن کمیشن کو خط سنگ میل ہے۔
وزیر اطلاعات نے کہا کہ ’آئین میں پارلیمنٹ کو قانون سازی کا اختیار دیا گیا ہے۔ یہ اختیار کسی دوسرے ادارے کے پاس نہیں۔ مخصوص نشستوں سے متعلق عدالتی فیصلے نے بہت سے سوالوں کو جنم دیا۔ کسی ادارے کو حق حاصل نہیں کہ وہ آئین کی اپنی مرضی سے تشریح کرے اور پارلیمان کو کمزور کرنے کی کوشش کرے۔‘
’آئین اور قانون عوام کے منتخب نمائندوں کا حق ہے. پارلیمان کی بالادستی کے لیے ہم اپنا کردار ادا کرتے رہیں گے۔‘
سابق سیکریٹری الیکشن کمیشن کنور دلشاد نے سپیکر قومی اسمبلی کے فیصلے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ سپیکر نے الیکشن ایکٹ میں ترمیم کے بعد پارلیمانی روایات کو سامنے رکھتے ہوئے الیکشن کمیشن کو رہنما اصول فراہم کیے ہیں۔ الیکشن کمیشن کو ان اصولوں کو بھی دیکھنا ہوگا۔ اس کے ساتھ ساتھ الیکشن کمیشن کے سامنے عدالت کا فیصلہ بھی موجود ہے جس کی وضاحت بھی آ چکی ہے اس لیے الیکشن کمیشن اس فیصلے کو بھی نظر انداز نہیں کر سکتا۔
انہوں نے کہا کہ تیسرا معاملہ الیکشن کمیشن ایکٹ کا آرٹیکل 104 ہے جس کے تحت الیکشن کمیشن نے یہ نشستیں الاٹ کی تھیں ایک بار پھر اب الیکشن کمیشن کو اس آرٹیکل سے رجوع کرنا پڑے گا۔
کنور دلشاد نے کہا کہ سپیکر نے اپنے خط میں کوئی فیصلہ نہیں دیا بلکہ انہوں نے رہنما اصول فراہم کیے ہیں۔ قومی اسمبلی کا سپیکر بہت اہم ہوتا ہے اور اس کے خط کی بھی اہمیت ہے لیکن سپریم کورٹ کے فیصلے پر عمل درآمد سے انکار بھی نہیں کیا جا سکتا۔ قانون کی نظر میں اس وقت سپریم کورٹ کا فیصلہ ہی اصل فیصلہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’مجھے لگتا ہے کہ الیکشن کمیشن سپریم کورٹ کے فیصلے پر عمل درآمد نہیں کرے گا کیونکہ الیکشن ایکٹ میں ترمیم کرتے ہوئے سپریم کورٹ کو یہ بھی کہا گیا ہے کہ وہ الیکشن کمیشن کے معاملات میں مداخلت نہیں کر سکتی، اس لیے اس حوالے سے اب تمام اختیارات بھی الیکشن کمیشن کے پاس ہی ہیں۔‘
ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن کا موقف ہے کہ تحریک انصاف ابھی تک ان کے پاس سیاسی جماعت کے طور پر رجسٹرڈ نہیں ہے کیونکہ ابھی تک تحریک انصاف کے انٹرا پارٹی انتخابات کو تسلیم نہیں کیا گیا اور نہ ہی اس حوالے سے الیکشن کمیشن نے کوئی حتمی فیصلہ کیا ہے اس لیے سپریم کورٹ کے فیصلے پر عمل درآمد ہوتا نظر نہیں آرہا۔
سپیکر نے اپنے خط میں مزید لکھا ہے کہ ’سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد الیکشن ایکٹ میں تبدیلی ہوچکی ہے۔ الیکشن ایکٹ میں ترمیم کے بعد سپریم کورٹ کے فیصلے پر عمل درآمد نہیں ہوسکتا۔ جس کا اطلاق ماضی سے ہوتا ہے آپ کی توجہ کے لیے الیکشن ایکٹ اس وقت نافذ العمل ہے۔ چنانچہ الیکشن کمیشن پارلیمنٹ کے بنائے ہوئے قانون پر عمل کرے۔ جمہوریت اور پارلیمنٹ کی بالادستی کے اصولوں پر عمل کرے۔‘
سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد اگست میں الیکشن ایکٹ 2024 میں دو اہم ترامیم شامل کی گئی تھیں۔ پہلی ترمیم الیکشن ایکٹ 2017 کے سیکشن 66 میں کی گئی جس کے تحت اسمبلی کا کوئی بھی رکن اپنی سیاسی جماعت کی وابستگی کا پارٹی سرٹیفکیٹ تبدیل نہیں کر سکتا۔ یعنی جب تک آزاد ارکان سنی اتحاد کونسل میں شامل ہو گئے وہ اب تحریک انصاف میں جانے کے لیے سرٹیفکیٹ جمع نہیں کروا سکتے جس کے لیے الیکشن کمیشن نے 12 جولائی کے فیصلے میں پندرہ دن کا وقت دیا تھا۔
دوسری ترمیم الیکشن ایکٹ 2017 کے سیکشن 104 میں کی گئی ہے، جس کے مطابق مخصوص نشستوں کے لیے جماعتوں کو لازمی طور پر مقررہ وقت پر امیدواروں کی فہرست جمع کرانا ہوگی۔ اس شق کا مقصد ہے کہ تحریک انصاف کے پاس چونکہ انتخابی نشان نہیں تھا اور انھوں نے 8 فروری کے انتخابات سے قبل کوئی ترجیحی فہرستیں جمع نہیں کروائی تھیں گویا سپریم کورٹ کے فیصلے کے نتیجے میں ان کی ترجیحی فہرستیں قبول نہیں کی جا سکتیں۔