Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

اسرائیلی حملوں کے بعد بیروت میں سینکڑوں خوفزدہ خاندان ساحلوں اور سڑکوں پر منتقل

اسرائیلی حملوں کی وجہ سے سینکڑوں خاندان گھر چھوڑنے پر مجبور ہوئے۔ (فوٹو: اے ایف پی)
سنیچر کی صبح بیروت کے جنوبی مضافاتی علاقوں سے دھواں اٹھ رہا تھا جو ان بہت سے خاندانوں کو دکھائی دے رہا تھا جو اسرائیل کی بمباری سے بچنے کے لیے اپنے گھر چھوڑ گئے تھے۔
خبر رساں ادارے اے پی کے مطابق یہ ایک تکلیف دہ رات تھی۔ سینکڑوں خاندانوں نے سڑکوں، ساحلوں اور اپنی گاڑیوں میں رات گزاری۔
گزشتہ رات اسرائیل نے ضاحیہ کے مختلف حصوں پر حملوں کا ایک سلسلہ شروع کیا جہاں ہزاروں لوگ رہتے ہیں۔
تقریباً ایک سال سے جاری تنازع کے دوران جمعے کو ہونے والے ایک بڑے دھماکے میں حزب اللہ کے رہنما حسن نصر اللہ مارے گئے۔
گزشتہ ایک ہفتے میں اسرائیلی حملوں میں تیزی آئی ہے جس میں لبنان میں 700 سے زیادہ افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
اسرائیل نے حزب اللہ کو مفلوج کرنے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔
لبنانی حکام کے مطابق پیر کے بعد سے لبنان میں مقیم تقریباً 22 ہزار 331 شامی اور 22 ہزار 117 لبنانی شہری شام منتقل ہو گئے ہیں۔
اقوام متحدہ کے دفتر برائے انسانی امور اوچا نے کہا ہے کہ رواں ہفتے بے گھر ہونے والے افراد کی تعداد میں دوگنا اضافہ ہوا ہے۔
اوچا نے کہا ہے کہ اب تک دو لاکھ 11 ہزار سے زیادہ لوگ بے گھر ہو چکے ہیں، جن میں کچھ انسانی ہمدردی کے کارکن بھی شامل ہیں۔
اوچا کے مطابق کے مطابق بے گھر ہونے والوں میں تقریباً 85 ہزار افراد پناہ گاہوں میں موجود ہیں۔
ایک شامی پناہ گزین فاطمہ شاہین نے بھی اپنے اہل خانہ کے ساتھ بیروت کے رملہ البیضا ساحل پر رات گزاری۔ اس سے ایک رات قبل جب دھماکے اور حملے ہو رہے تھے تو وہ اپنے شوہر اور دو بچوں سمیت موٹر سائیکل پر سوار ہو کر جلدی سے ضاحیہ سے نکل گئی تھیں۔
انہوں نے کہا کہ ’خدا کا شکر ہے کہ کوئی زخمی نہیں ہوا۔
حکومت نے بے گھر افراد کے لیے بیروت میں سکول کھول دیے ہیں۔ لیکن شامی شہریوں کا کہنا ہے کہ بعض مقامات پر ان کو جگہ نہیں دی گئی اور کہا گیا کہ یہ لبنانی شہریوں کے لیے مختص ہے۔  
فاطمہ شاہین نے کہا کہ حملوں سے بچنے کے لیے ان کا خاندان سیدھا ساحل سمندر کی جانب چلا گیا۔
انہوں نے کہا کہ ’ہم ایک ایسی جگہ چاہتے ہیں جہاں ہمارے بچے خوفزدہ نہ ہوں۔ ہم بچوں کی وجہ سے 2011 میں شام کی جنگ سے بھاگے تھے اور ہم یہاں آئے تھے۔‘

شیئر: