Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ہیلتھ ورکرز کی تربیت نوجوانوں کو خودکشی سے کیسے بچا سکتی ہے؟

وزیر صحت سندھ کے مطابق ’نفسیاتی اور دیگر مسائل کے حل کے لیے ٹیلی ہیلتھ کا استعمال کر رہے ہیں‘ (فائل فوٹو: پِکسابے)
کراچی کے علاقے سرجانی ٹاؤن میں ایک نوجوان کی گلے میں رسی کا پھندا لگی نعش ملی جس سے علاقے میں خوف کی لہر دوڑ گئی۔ 
26 سال کے نوجوان علی کی زندگی کی اُمیدیں بے روزگاری کی مشکلات میں دم توڑ چُکی تھیں اور پھر اُنہوں نے اپنے خوابوں کی دنیا کو چھوڑنے کا فیصلہ کر لیا۔
سیکٹر 7 اے کے ایک چھوٹے سے گھر میں علی کے چہرے پر ایک مایُوس کن مسکراہٹ تھی، جسے اب کوئی نہیں دیکھ سکتا تھا۔ 
اُن کی والدہ جو روزانہ اپنے بیٹے کی کامیابی کے خواب دیکھتی تھیں، آج اُس کی نعش کے سامنے بے بسی کے عالم میں کھڑی تھیں۔
علی کی کہانی ایک عکاسی تھی اُن ہزاروں نوجوانوں کی جو زندگی کی مشکلات کے سامنے ہار مان لیتے ہیں۔
پولیس نے ابتدائی طور پر اس واقعے کو بے روزگاری سے جوڑا ہے، علی گذشتہ کئی ماہ سے ملازمت کی تلاش میں تھا، لیکن ناکامی کا سامنا ہی اُس کے لیے مایوسی کا باعث بنا۔
پولیس نے قانونی کارروائی کے تحت نعش کو عباسی شہید ہسپتال منتقل کیا، تاہم علی کے ورثا نے پوسٹ مارٹم اور دیگر قانونی کارروائی سے انکار کر دیا۔ 
پولیس نے ضابطے کی کارروائی مکمل کرنے کے بعد مقتول کی نعش اس کے ورثا کے حوالے کر دی۔
سرجانی ٹاؤن کا یہ واقعہ صرف ایک نوجوان کی داستان نہیں، بلکہ ایک ایسی حقیقت کی عکاسی کرتا ہے جو آج کے معاشرے کی زبوں حالی کی جانب اشارہ کرتی ہے۔ 
اس واقعے نے نہ صرف علی کے اہلِ خانہ کو متاثر کیا بلکہ حکومت کو بھی سوچنے پر مجبور کیا کہ حکمرانوں کو اب معاشرتی مسائل کی جانب توجہ دینا ہوگی، تاکہ کوئی اور نوجوان اپنی قیمتی زندگی کا خاتمہ نہ کرے۔
سندھ کی وزیر صحت عذرا پیچوہو کے مطابق پاکستان کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں خودکشی کے واقعات میں روز بہ روز اضافہ ہو رہا ہے۔ بیشتر واقعات میں خودکشی کرنے والوں کے اہلِ خانہ قانونی کارروائی کرنے سے انکار کر دیتے ہیں۔
عذرا پیچوہو کا کہنا تھا کہ سندھ میں کام کرنے والے ہیلتھ ورکرز کو خودکشی سے بچاؤ کی تربیت دی جارہی ہے، مایوسی کے شکار افراد کی اگر بہتر انداز میں کاؤنسلنگ کی جائے تو انہیں زندگی کی امید دلائی جاسکتی ہے۔

 علی کے ورثا نے پوسٹ مارٹم اور دیگر قانونی کارروائی سے انکار کر دیا (فائل فوٹو: پِکسابے)

صوبائی وزیر صحت کے مطابق سندھ حکومت کو ذہنی صحت کے ماہرین کی کمی کا سامنا ہے، تاہم نفسیاتی اور دیگر مسائل کے حل کے لیے ٹیلی ہیلتھ کا استعمال کر رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ خودکشی ایک پیچیدہ مسئلہ ہے، نہ صرف ان افراد کے لیے جو خودکشی کرتے ہیں بلکہ اُن کے اہلِ خانہ پر بھی اِس کے منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ 
خودکشی کی روک تھام کے لیے کام کرنے والے ادارے پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف لیونگ اینڈ لرننگ (پی آئی ایل ایل) سے وابستہ نسرین چوہدری نے بھی اس حوالے سے اردو نیوز سے بات کی۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان میں خودکشی کرنے والوں کا کوئی مستند ڈیٹا اب تک ترتیب نہیں دیا جاسکا اور اس کی اہم وجہ مرنے والوں کے اہل خانہ کی جانب سے تعاون نہ کرنا ہے۔
نسرین چوہدری کا کہنا ہے کہ ’ہمارے معاشرے میں خودکشی کرنے والوں کے بارے میں بات نہیں کی جاتی۔‘
’لوگ کوشش کرتے ہیں کہ خودکشی کرنے والے کی موت کے بارے میں کسی کو نہ بتایا جائے کیونکہ اس بارے میں اُٹھنے والے سوالات سے وہ بچنا چاہتے ہیں۔‘
ان کے مطابق پاکستان کی زیادہ تر نوجوان آبادی میں اموات کی چوتھی بڑی وجہ خودکشی ہے۔پاکستان میں اس سنگین معاملے پر آواز اٹھانے کی ضرورت ہے۔

شیئر: