برٹش پاکستانی سارہ شریف کے قتل کے الزام میں والد سمیت تین ملزمان کا ٹرائل شروع
برٹش پاکستانی سارہ شریف کے قتل کے الزام میں والد سمیت تین ملزمان کا ٹرائل شروع
منگل 15 اکتوبر 2024 12:08
ہینڈ رائٹنگ کے ماہر نے نوٹ کا تجزیہ کرنے کے بعد نتیجہ اخذ کیا کہ یہ عرفان شریف کی ہی لکھائی ہے۔ فائل فوٹو: اے ایف پی
لندن میں گزشتہ برس قتل کی گئی 10 سالہ برٹش پاکستانی لڑکی کے مقدمے میں تین ملزمان کو عدالت میں پیش کر دیا گیا ہے۔
خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق لندن میں پراسیکیوٹر نے عدالت کو بتایا کہ مرنے والی لڑکی کے جسم پر جلائے جانے کے نشانات کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ استری کے تھے۔
دس سالہ سارہ شریف کی لاش ملنے کے بعد دنیا بھر میں اُن ملزمان کی تلاش شروع کر دی گئی تھی جو جائے وقوعہ سے فرار ہوئے تھے۔
سارہ شریف کی لاش گزشتہ سال دس اگست کو جنوبی انگلینڈ کے علاقے ووکنگ میں واقع اُن کے گھر سے ملی تھی۔
لاش ملنے کے بعد انٹرپول اور برطانیہ کی وزارت خارجہ نے ملزمان کی تلاش اور گرفتاری کے لیے پاکستانی حکام سے رابطہ کیا تھا۔
سارہ کی لاش ملنے سے ایک دن قبل اُن کے 42 سالہ والد عرفان شریف، 30 سالہ سوتیلی ماں بینش بتول اور 29 سالہ چچا فیصل ملک دیگر پانچ بچوں کو لے کر برطانیہ سے پاکستان پہنچے تھے۔
تینوں کو قتل کے الزام میں اب مقدمے کا سامنا ہے۔
سارہ شریف کے پوسٹمارٹم میں ’تشدد کے نشانات اور سر پر چوٹ‘ پائی گئی تھی۔ اس کے علاوہ جسم پر جلائے جانے اور ممکنہ طور پر انسانی دانتوں کے کاٹے جانے کے نشانات پائے گئے۔
پراسیکیوٹر کے مطابق ملزمہ سوتیلی ماں نے اپنے دانتوں کے سیمپل دینے سے انکار کر دیا تھا۔
پراسیکیوٹر نے بتایا کہ سارہ شریف کی لاش کی پسلیوں، کندھوں، انگلیوں اور ریڑھ کی ہڈی کے گیارہ فریکچرز بھی پوسٹمارٹم رپورٹ میں آئے تھے۔
جیوری کے سامنے گزشتہ سال آٹھ اگست کی ایک ٹیلی فون کال کی ریکارڈنگ بھی چلائی گئی جس میں بینش بتول اسلام آباد کے لیے فلائٹ بُک کرنے کا بتا رہی ہیں۔
سارہ شریف کی لاش اُس وقت اُن کے گھر سے ملی جب بظاہر پاکستان سے اُن کے والد نے ایک ایمرجنسی فون کال کے ذریعے ووکنگ کی پولیس کو آگاہ کیا۔
پراسیکیوٹر نے جیوری کو بتایا کہ سارہ شریف کی لاش کے قریب اُن کے والد عرفان شریف کا لکھا ہوا ایک نوٹ بھی ملا تھا جس میں بظاہر اعتراف کیا گیا ہے۔
جیوری کو دکھائے گئے نوٹ میں لکھا ہے کہ ’سارہ میں تم سے محبت کرتا ہوں۔‘
دوسرے صفحے پر لکھا ہے کہ ’جو بھی یہ نوٹ دیکھے وہ مجھے عرفان شریف سمجھے جس نے اپنی بیٹی کو مار مار کر قتل کیا۔‘
آگے لکھا ہے کہ ’میں فرار ہو رہا ہوں کیونکہ میں ڈرتا ہوں لیکن میں وعدہ کرتا ہوں کہ میں اپنے آپ کو حوالے کروں گا اور سزا پاؤں گا۔‘
ایک اور صفحے پر لکھا تھا کہ ’میں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میرا ارادہ اُس کو قتل کرنے کا نہیں تھا لیکن میں اسے کھو بیٹھا ہوں۔‘
ہینڈ رائٹنگ کے ماہر نے نوٹ کا تجزیہ کرنے کے بعد نتیجہ اخذ کیا کہ یہ عرفان شریف کی ہی لکھائی ہے۔
تینوں ملزمان جو گزشتہ سال ستمبر میں دبئی سے برطانیہ پہنچنے والی پرواز سے اترنے کے بعد گرفتار کیے گئے تھے، نے قتل کے الزام سے انکار کیا ہے۔