Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

نواز شریف انڈیا سے اچھے تعلقات کے موقف پر قائم، ’اچھا ہوتا اگر وزیراعظم مودی خود آتے‘

نواز شریف نے کہا ’میں ہمیشہ سے انڈیا کے ساتھ اچھے تعلقات کا حامی رہا ہوں‘ (فائل فوٹو: برکھا دت، ایکس)
پاکستان میں حکمراں جماعت مسلم لیگ ن کے صدر نواز شریف نے حال ہی میں شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کی کوریج کے لیے آئی معروف انڈین صحافی برکھا دت سے اپنی رہائش گاہ پر ملاقات کی ہے۔ اس ملاقات میں وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز بھی موجود تھیں۔
برکھا دت نے اس میٹنگ کے بعد ایک ولاگ  ریکارڈ کیا اور اس میں بتایا کہ نواز شریف کے ساتھ ملاقات میں انہوں نے یہ عندیہ دیا ہے کہ ’میں ہمیشہ سے انڈیا کے ساتھ اچھے تعلقات کا حامی رہا ہوں۔ میں امید کرتا ہوں کہ انڈیا کے ساتھ تعلقات کی بحالی کا ایک اور موقع نکلے۔ بہت اچھا ہوتا اگر وزیراعظم مودی ایس سی او کے اجلاس میں خود شریک ہوتے۔ میں اس بات کی توقع کرتا ہوں کہ مستقبل قریب میں وزیراعظم مودی کے ساتھ بیٹھ کے بات کرنے کا موقع ملے گا۔‘
خیال رہے کہ دسمبر 2015 میں جب نواز شریف وزیراعظم تھے تو انڈین وزیراعظم نریندر مودی اچانک افغانستان سے انڈیا واپس جاتے ہوئے لاہور میں لینڈ کر گئے تھے اور جاتی امرا میں نواز شریف کے گھر جا کر ان سے ملاقات کی تھی۔
سیاسی مبصرین کے مطابق اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ شروع ہونے والی لڑائی میں اس واقعے کا بھی ایک بڑا کردار تھا۔
اس لڑائی میں بالآخر نواز شریف کو گھر جانا پڑا تھا اور وہ تیسری مرتبہ بھی اپنی وزارت عظمیٰ کی مدت پوری نہیں کر پائے تھے۔ تاہم اس حالیہ بیان سے یہ بھی معلوم پڑتا ہے کہ نواز شریف انڈیا کے ساتھ بہتر تعلقات کے اپنے موقف پر آج بھی قائم ہیں۔
اس سے پہلے نوے کی دہائی کے آخر یعنی 1999 میں اس وقت کے انڈین وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی بھی لاہور آئے تھے اور اس وقت بھی نواز شریف ہی وزیراعظم تھے۔ اس وقت مشہور زمانہ لاہور ڈیکلریشن دستاویز پر دستخط ہوئے تاہم چند ہی مہینوں بعد کارگل جنگ اور پھر اسی کے تناظر میں بعد ازاں پرویزمشرف کے مارشل لا لگانے پر نوازشریف کو گھر جانا پڑا۔
انڈیا سے متعلق نواز شریف کا بیانیہ اس وقت کیا اہمیت رکھتا ہے؟ اس سوال کا جواب جاننے کے لیے جب خارجہ امور کے ماہر اور انسٹیٹیوٹ آف انٹرنیشنل ریلیشنز اینڈ میڈیا ریسرچ کے سربراہ محمد مہدی سے رابطہ کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ ’اس وقت پاکستان کی اہمیت سٹرٹیجیک سے بڑھ کر اقتصادی ہو گئی ہے۔ چین، ایران، روس اور حتیٰ کہ انڈیا ان سب ملکوں کو نئے حالات کے لیے پاکستان کی ضرورت ہے۔‘

 سنہ 1999 میں اس وقت کے انڈین وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی بھی لاہور آئے تھے (فائل فوٹو: اے ایف پی)

 محمد مہدی نے کہا کہ ’اگر روس ممبئی سے ماسکو کوریڈور بنانا چاہتا ہے یا انڈیا اپنی مصنوعات سینٹرل ایشیا تک پہنچانا چاہتا ہے تو یقیناً اس سب کے لیے پاکستان سے تعلقات بہتر ہونا بہت ضروری ہیں۔‘
انہوں نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ’میرا خیال ہے نواز شریف نے وہی بات کہی ہے جو اس وقت پاکستان کی مقتدرہ بھی کر رہی ہے۔ سب کو پاکستان کی معیشت کی فکر ہے۔ اور نواز شریف نے انڈیا کے ساتھ تعلقات کو ہمیشہ اقتصادی تناظر میں دیکھے ہیں۔‘
’وہاں کا کاروباری طبقہ اور یہاں کا کاروباری طبقہ دونوں یہی چاہتے ہیں۔ اس لیے نواز شریف نے بڑی موقع محل بات کی ہے۔‘
تجزیہ کار حسن عسکری کا بھی خیال ہے کہ اس وقت انڈیا سے تعلقات بہتر ہونا ضروری ہے تاہم ’2019 سے چیزیں بہت پیچھے کو چلی گئی ہیں، انڈیا کے ساتھ سفارتی تعلقات بھی کم ترین سطح پر ہیں۔ کشمیر پر انڈیا بہت کچھ کر چکا ہے اس لیے اب صورت حال پیچیدہ ہے۔ انڈیا اور ایس سی او جیسے سمٹ کا فائدہ اٹھانا چاہیے تھا۔ میرا خیال ہے نواز شریف نے بھی یہی اشارہ کیا ہے۔‘

شیئر: