Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

26ویں آئینی ترمیم: ججوں کی کارکردگی جانچنے کا معیار کیا ہوگا؟

ماہرین کا کہنا ہے کہ مجموعی طور پر ججوں کی کارکردگی جانچنے کا فیصلہ درست ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)
پاکستان کی پارلیمان کی طرف سے منظور کی گئی 26ویں آئینی ترمیم، جو صدر کے دستخط کے بعد اب باقاعدہ قانون بن چکی ہے، میں متعارف کروائی گئی دیگر اصلاحات میں سے ایک ججوں کی کارکردگی کو جانچنا بھی ہے۔
آرٹیکل 175 اے میں کی گئی ترمیم کے مطابق اب جوڈیشل کمیشن سالانہ بنیادوں پر ہائی کورٹ ججوں کی کارکردگی جانچے گا اور اس کے لیے قوانین بھی بنا سکے گا۔
اس ترمیم کے منظور ہونے سے پہلے بھی حکومتی اراکین اس کے حق میں دلائل دیتے رہے ہیں اور کہتے رہے ہیں کہ ججوں کی کارکردگی کا جائزہ لینے سے عوام کے مقدمات کا فیصلہ جلد ہو گا اور عدالتوں میں زیر التوا مقدمات میں کمی آئے گی۔

لیکن کمیشن ججوں کی کارکردگی کیسے جانچے گا اور اس کا معیار کیا ہو گا؟

اگرچہ ترمیم کے مطابق اس کے اصول و ضوابط بعد میں بنائے جا سکتے ہیں لیکن آئینی ماہرین کے خیال میں کچھ پہلو ججز کی کارکردگی کے معیار کا تعین کر سکتے ہیں۔
سینیئر قانون دان بیرسٹر ظفراللہ کے خیال میں ایک جج کی ڈگریاں، اس کے مقدمات سننے کا انداز اور رویہ، تحقیقی مقالے اور مقدمات کے فیصلوں کی تعداد دیکھ کر اس کی کارکردگی کا درست فیصلہ کیا جا سکتا ہے۔
سابق وفاقی وزیر ڈاکٹر خالد رانجھا کے مطابق سنے گئے مقدمات کی بجائے اگر یہ دیکھا جائے کہ ایک جج نے کتنے مقدمات میں درست فیصلہ کیا ہے تو اس سے کارکردگی کے معیار کا زیادہ بہتر اندازہ ہو گا۔
انہوں نے اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’اگر تو معیار جانچنے والوں کی سوچ کاروباری ہے تو وہ یہ دیکھیں گے کہ ایک جج کے سنے گئے مقدمات کی تعداد کیا ہے، لیکن اگر آپ انصاف کے معیار کی بنیاد پر کارکردگی جانچنا چاہتے ہیں تو پھر آپ یہ دیکھیں گے کہ ایک جج نے کتنے ایسے مقدمات سنے ہیں جن میں درست اور معیاری انصاف فراہم کیا گیا ہے اور کتنے مقدمات کے فیصلوں پر انگلی نہیں اٹھائی جا سکتی۔ جج کی کارکردگی کا معیار فراہم کیے گئے انصاف سے ہوتا ہے نہ کہ سنے گئے مقدمات کی تعداد سے۔‘

ججوں کی کارکردگی جانچنے سے عام آدمی کو فائدہ ہو گا؟

 تاہم بیرسٹر ظفراللہ کے خیال میں اس ترمیم کا عوام کو بلاواسطہ فائدہ پہنچنے کا امکان کم ہے کیونکہ اس کے مطابق ہائی کورٹ کے ججز کی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے گا نہ کہ ماتحت عدلیہ کا جو کہ عام لوگوں کے روز مرہ مقدمات سنتی ہے۔

بیرسٹر ظفراللہ کے خیال میں آئینی ترمیم کا عوام کو بلاواسطہ فائدہ پہنچنے کا امکان کم ہے۔ (فوٹو: نیشنل اسمبلی فیس بک)

ان کے مطابق ’اس سے عوام کو یہ تو فائدہ ہو سکتا ہے کہ ان کے جو مقدمات ہائی کورٹ میں آئیں وہ جلدی سنے جائیں اور زیر التوا مقدمات کی تعداد کم ہو سکے لیکن فوری طور پر ماتحت عدلیہ پر اس کے اثرات مرتب ہونے کا امکان نہیں ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ حکومت کو ماتحت عدلیہ میں مقدمات کے جلد فیصلوں کے لیے مصالحتی کمیٹیوں کے نظام کو فروغ دینا چاہیے۔
’مجموعی طور پر ججوں کی کارکردگی کا جائزہ لینے کا فیصلہ درست ہے اور اس سے اعلٰی عدلیہ میں مقدمات کے فیصلے جلد ہوں گے۔ پوری دنیا کے نظام انصاف میں یہ قانونی نقطہ ہوتا ہے اور یہ اچھا اقدام ہے۔ لیکن عام آدمی کے فائدے کے لیے ماتحت عدلیہ میں بھی اس طرح کی اصلاحات لانی چاہییں۔‘
لیکن ڈاکٹر خالد رانجھا کے مطابق اس قانون سے ہائی کورٹ اور اس میں چلنے والے اشرافیہ کے مقدمات پر اثرات تو مرتب ہوں گے لیکن عام آدمی کو اس سے فائدہ نہیں ہو گا۔

شیئر: