Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

26 ویں آئینی ترمیم: پاکستان کا اگلا چیف جسٹس کون ہوگا اور آئینی بینچز کیسے بنیں گے؟

پاکستان کے ایوان بالا سینٹ نے اتوار کی رات کو 26 ویں آئینی ترمیم کی منظوری دے دی ہے۔
دو تہائی اکثریت سے زائد 65 ارکان ترمیم کے حق میں جبکہ چار نے مخالفت میں ووٹ دیے۔
اتوار کے روز سینٹ کا اجلاس چیئرمین سینٹ سید یوسف رضا گیلانی کی زیر صدارت ہوا۔ وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے آئینی ترمیمی بل ایوان میں پیش کیا۔ جمیعت علمائے اسلام کے سینیٹر کامران مرتضی نے الگ سے ترامیم پیش کیے جن کی حکومت نے حمایت کی۔
تحریک انصاف کے چار سینیٹرز نے ترمیمی بل کی شق دو کی مخالفت کرتے ہوئے ووٹنگ میں حصہ لیا بعد ازاں انہوں نے ایوان سے واک آؤٹ کیا۔
تاہم بل کی تھرڈ ریڈنگ سے پہلے چاروں سینیٹرز ایوان میں واپس آئے اور حتمی ووٹنگ میں حصہ لیتے ہوئے آئینی ترمیمی بل کی مخالفت کی۔
حکومتی اتحاد کے 58، جمعیت علمائے اسلام کے 5 اور بلوچستان نیشنل پارٹی (بی این پی) مینگل کے دو سینیٹرز نے بل کے حق میں ووٹ دیا۔
ترمیم کے تحت آئین میں ایک نئے آرٹیکل کا اضافہ کیا گیا ہے جسے ارٹیکل 9 اے کا نام دیا گیا ہے جس کے مطابق شفاف، صحت مند اور پائیدار ماحول کو بنیادی حق قرار دیا گیا ہے۔
جمعیت علمائے اسلام نے آئین کے آرٹیکل 38 کے پیراگراف ایف میں ترمیم کی تجویز پیش کی، جس میں کہا گیا کہ سودی نظام کاخاتمہ جتنا جلدی ممکن ہو کیا جائے گا۔ حکومت کی حمایت پر ایوان نے آرٹیکل 38 میں ترمیم منظور کرلی۔
آرٹیکل 48 میں ترمیم کے ذریعے وزیراعظم اورکابینہ کی جانب سے صدر کو بھیجی جانے والی کسی بھی ایڈوائس پر کوئی ادارہ کوئی ٹریبیونل اورکوئی اتھارٹی کارروائی نہیں کرسکے گی۔
آرٹیکل 175 اے میں ترمیم کے تحت سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے ججوں تقرری کے لیے کمیشن کا قیام عمل میں لایا جائے گا۔ ججوں کی تقرری سے متعلق کمیشن 13 اراکین پر مشتمل ہوگا اور چیف جسٹس آف پاکستان کمیشن کے سربراہ ہوں گے۔
کمیشن میں سپریم کورٹ کے چارسنیئر ترین جج، وفاقی وزیرقانون، اٹارنی جنرل اور سنیئر وکیل پاکستان بارکونسل، دواراکین اسمبلی اور دواراکین سینٹ شامل ہوں گے جو بالترتیب حکومت اوراپوزیشن سے لیے جائیں گے اور ان کی نامزدگی قومی اسمبلی اور سینیٹ کے قائد ایوان اور اپوزیشن لیڈرکریں گے۔
ترمیم کے مطابق آرٹیکل 175 اے کی شق 3 اے کے تحت 12 اراکین پر مشتمل خصوصی پارلیمانی کمیٹی تشکیل دی جائے گی، خصوصی پارلیمانی کمیٹی میں قومی اسمبلی سے8، سینیٹ سے چار اراکین کو لیا جائے گا۔ قومی اسمبلی تحلیل ہونے کی صورت میں خصوصی پارلیمانی کمیٹی میں تمام اراکین سینیٹ سے ہوں گے۔
خصوصی پارلیمانی کمیٹی میں تمام سیاسی جماعتوں کی متناسب نمائندگی ہوگی۔ پارلیمانی لیڈر خصوصی پارلیمانی کمیٹی کے لیے اراکین سپیکر اور چیئرمین سینیٹ کو دینے کے مجاز ہوں گے۔ سپیکر قومی اسمبلی خصوصی پارلیمانی کمیٹی کا نوٹیفکیشن جا ری کریں گے۔
چیف جسٹس ریٹائرمنٹ سے 14 روز قبل سنیارٹی لسٹ فراہم کرنے کے پابند ہوں گے۔ چیف جسٹس آف پاکستان خصوصی پارلیمانی کمیٹی کو سینیئر ترین ججوں کے نام بھجوائیں گے۔ پارلیمانی کمیٹی تین ناموں میں سے ایک کا انتخاب کرکے وزیراعظم کو ارسال کرے گی۔ وزیراعظم چیف جسٹس کی تقرری کے لیے نام صدر کو ارسال کریں گے۔
 ترمیم کے مطابق سینیارٹی لسٹ میں موجود نامزد ججوں کے انکار پر پارلیمانی کمیٹی اگلے سینیئر ترین جج کے نام پر غور کرے گی۔ پارلیمانی کمیٹی نامزدگیوں پر اس وقت تک جائزہ لے گی جب تک چیف جسٹس کا تقرر نہ ہوجائے۔
آرٹیکل177 میں ترمیم کے تحت دوہری شہریت کا حامل کوئی بھی شخص سپریم کورٹ کا جج نہیں بن سکے گا۔ آرٹیکل177 میں ترمیم کے تحت سپریم کورٹ کا جج بننے کے لیے ہائی کورٹ میں بطور جج 5 سال کام کرنے کی حد مقرر ہوگی۔ کسی بھی وکیل کا سپریم کورٹ کا جج بننے کے لیے بطور وکیل 15 سال کی پریکٹس لازم ہوگی۔
آئین کے آرٹیکل 179 میں ترمیم کے تحت چیف جسٹس آف پاکستان کا تقرر تین سال کے لیے ہوگا اور چیف جسٹس آف پاکستان 65 سال کی عمرمیں ریٹائرہوں گے۔
اس حوالے سے وزیر قانون نے بتایا ہے کہ ماضی میں کئی ججوں کا ٹینیور چھ سال اور کچھ کا چند ماہ رہا ہے۔ اس لیے ترمیم کی ہے کہ اگر کوئی جج 60 سال کی عمر میں جج بن جاتا ہے تو وہ دیگر آئینی اداروں کے سر براہان کی طرح تین سال بعد یعنی 63 برس کی عمر میں ریٹائر ہو جائے گا۔ اور اگر کوئی چیف جسٹس اپنے تقرر کے بعد تین سال کی مقررہ میعاد سے پہلے ہی 65 برس کا ہوجائے گا تو بھی ریٹائر ہو جائے گا۔
آرٹیکل 184 میں ترمیم  کے تحت سپریم کورٹ کا ازخود نوٹس کا اختیار ختم کردیا گیا ہے اور آرٹیکل 184 کے تحت سپریم کورٹ میں دائر درخواست کے مندرجات یا اختیارات سے ماورا از خود کوئی فیصلہ یا ہدایت نہیں دے گا۔
سینیٹ سے منظور ہونے والے آئین کے آرٹیکل187 میں ترمیم کے تحت سپریم کورٹ کے زیر اختیار اور استعمال کردہ دائرہ اختیار کی پیروی کے علاوہ کوئی حکم منظور نہیں کیا جائے گا۔
آئین میں ایک اور نیا آرٹیکل 191 اے بھی شامل کیا گیا ہے۔ آرٹیکل191 کے تحت آئینی بینچز کی تشکیل عمل میں لائی جائے گی۔ سپریم کورٹ میں ایک سے زیادہ آئینی بینچز کی تشکیل کی جا سکے گی اور جوڈیشل کمیشن آئینی بینچز کے ججوں اور ان کی مدت کا تعین کرے گی۔
آئینی بینچز میں تمام صوبوں کے ججوں کی مساوی نمائندگی ہوگی۔ آئینی بینچ کم سے کم پانچ ججوں پر مشتمل ہوگا۔ سپریم جوڈیشل کونسل کے تین سینیئر جج آئینی بینچوں کو تشکیل دیں گے۔ زیرالتوا اور زیر سماعت تمام آئینی مقدمات، نظرثانی اور اپیلیں آئینی بینچوں کو منتقل کیے جائیں گے۔
صوبائی ہائی کورٹس میں آئینی بینچوں کی تشکیل صوبائی اسمبلیوں کی 51 فیصد اکثریت سے منظور کردہ قرار داد کے ذریعے ہوسکے گی۔
آرٹیکل 215 میں ترمیم تحت چیف الیکشن کمشنر اور اراکین اپنی مدت پوری ہونے پر نئے کمشنر اور اراکین کی تعیناتی تک کام جاری رکھنے کے اہل ہوں گے اور اس ترمیم کی بھی کثرت رائے سے منظوری دی گئی۔
 آرٹیکل 255 میں ترمیم کے تحت کسی شخص کے سامنے حلف اٹھانا نا قابل عمل ہونے پر سپریم کورٹ کے چیف جسٹس اور صوبائی سطح پر ہائی کورٹ کے چیف جسٹس حلف لینے کے مجاز ہوں گے۔

شیئر: