Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

26ویں آئینی ترمیم میں سقم: کیا اب ایک نئی ترمیم لانا پڑے گی؟

ماہرین کو اس نئی ترمیم میں کئی سقم دکھائی دے رہے ہیں جو کسی بھی وقت صورت حال کو بند گلی میں لے جا سکتے ہیں (فائل فوٹو: اے پی پی)
پاکستان کے آئین میں ہونے والی وقتاً فوقتاً تبدیلیوں میں کئی نکات ایسے ہیں جو تنازعات کا شکار رہے ہیں۔ 26ویں آئینی ترمیم بھی کہیں نہ کہیں اس فہرست میں شامل دکھائی دیتی ہے کیونکہ اس کو متفقہ نہیں کہا جا سکتا۔ ایک چیز جو اس ترمیم کو پاس کروانے کے لیے زیادہ نظر آئی وہ ڈرامائی واقعات اور عجلت ہے جو ہر طرف عیاں تھی۔
اب جب ترمیم پاس ہو چکی ہے اور شورشرابا بھی کچھ کم ہوا ہے، اور نئے چیف جسٹس کا نوٹیفیکیشن بھی جاری ہو چکا ہے تو ماہرین کو اس نئی ترمیم میں ایسے کئی سقم دکھائی دے رہے ہیں جو کسی بھی وقت صورت حال کو بند گلی میں لے جا سکتے ہیں۔
مثال کے طور پر نئے چیف جسٹس کا نام تجویز کرنے والی پارلیمانی کمیٹی نے یہ نام دو تہائی کی اکثریت سے منظور کرنا ہے۔
اس بات کی وضاحت نہیں کی گئی کہ اگر کسی بھی وجہ سے پارلیمانی کمیٹی ایک واضح نام کے لیے دو تہائی اکثریت حاصل نہیں کر سکتی تو ایسی صورت حال میں کیا ہو گا؟
معروف قانون دان بیرسٹر سعد رسول کہتے ہیں کہ ’یہ ایک عجیب صورت حال ہو گی کیونکہ منگل کی رات جب 11 بجے تک کمیٹی کسی نام پر متفق نہیں ہوئی تو سب سے بڑا سوال ذہنوں میں یہی آرہا تھا کہ اگر دو تہائی اکثریت سے اتفاق نہ ہوا تو پھر کیا صورت حال ہو گی؟
’اس ترمیم میں ایسی صورت کی وضاحت نہیں۔ یہ تک بھی نہیں کہ ایسی صورت میں قائم مقام چیف جسٹس کیسے کام کرے گا یا سپریم کورٹ چیف جسٹس کے بغیر کام کرے گی؟‘
اپنی بات جاری رکھتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’چیف جسٹس کی تعیناتی کے لیے تو ایک ایک چیز کی وضاحت رکھی گئی ہے کہ اگر کوئی انکار کر دے گا تو پھر کیا ہو گا اس سے اگلا جج بھی انکار کر دے گا تو پھر آگے کیسے جانا ہے، تاہم اپنی طرف دھیان دینا بھول گئے کہ کمیٹی کا راستہ بند ہو گیا تو کون کھولے گا؟ صاف نظر آرہا ہے کہ یہ سب عجلت میں کیا گیا ہے۔‘
ایک اور بات جس پر سوال اٹھائے جا رہے ہیں وہ ہے کہ آئینی بینچ کس طرح کے آئینی کیسز سنے گا؟ کیونکہ ہر درخواست میں کہیں نا کہیں سے کسی آئینی شق کے ذریعے داد رسی کی بات کی جاتی ہے اور یہ صورت حال سپریم کورٹ اور دیگر ہائی کورٹس میں منگل اور بدھ کو دکھائی بھی دی۔

خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف کی حکومت ہے اور وہ پہلے ہی اس آئینی ترمیم کو رد کر چکی ہے (فائل فوٹو: اے ایف پی)

حتی کہ جسٹس منصور علی شاہ نے کئی درخواستوں پر سماعت نہیں کی اور ریمارکس دیے اس میں آئین کی تشریح کی بات ہوئی ہے تو اب یہ آئینی بینچ ہی سنے گا۔
سعد رسول کہتے ہیں کہ ’اس چیز کی وضاحت ضروری تھا کہ ان آئینی بینچوں کی مقصدیت کیا ہے۔ اگر خیبرپختونخواہ کی اسمبلی آئینی بینچ بناتی ہی نہیں تو وہاں آئینی درخواستیں کون سنے گا کیونکہ اب آئین کی منشا تو یہ ہے کہ آئینی درخواستیں صرف آئینی بنچ سن سکتا ہے۔‘
خیال رہے کہ صوبوں میں آئینی بینچوں کی تشکیل کے لیے صوبائی اسمبلیوں سے ان بینچز کی تشکیل کی اجازت لینا بھی ضروری ٹھرایا گیا ہے۔
خیبرپختونخواہ میں تحریک انصاف کی حکومت ہے اور وہ پہلے ہی اس آئینی ترمیم کو رد کر چکی ہے۔ تو یہ سوال سر اٹھاتا نظر آ رہا ہے کہ وہاں کے آئینی مسئلے کیسے حل ہوں گے۔

27 ویں ترمیم کی باتیں:

جو لوگ آئینی ترمیم میں تکنیکی نقائص کی نشاندہی کر رہے ہیں ان کا ماننا ہے کہ حکومت کو کچھ مسائل کے حل کے لیے 27 ترمیم لانا ہو گی۔ ایڈووکیٹ میاں داود کے خیال میں سب سے زیادہ غلطیاں تو املا کی ہیں۔

ایڈووکیٹ میاں داؤد کے خیال میں 26 ویں آئینی ترمیم میں سب سے زیادہ غلطیاں تو املا کی ہیں (فائل فوٹو: اے پی پی)

’اس پر سپریم کورٹ کے بڑے بڑے فیصلے ہیں لا آف پنکچوایشن ہے۔ اتنی غلطیاں ہیں جہاں ’کومہ‘ لگنا تھا ’فل سٹاپ‘ لگنا تھا کئی جگہوں پر نہیں لگائے گئے ہیں۔ اور یہ آئین ہے یہاں ایک نقطے کے اضافے کے لیے بھی آپ کو ترمیم لا کر کرنا پڑتا ہے۔ خود اس ترمیم میں کچھ ترمیمیں پرانی املا کی غلطیوں کی بھی کی گئی ہیں۔‘
ناقدین اس بات پر متفق ہیں کہ اس سارے معاملے میں بہرحال عجلت دکھائی دیتی ہے۔ سینیئر صحافی اجمل جامی کہتے ہیں کہ ’اس کو دو طرح سے دیکھا جا رہا ہے ایک یہ عجلت اور دوسرا جان بوجھ کے کچھ چیزیں ادھوری رکھی گئی ہیں کہ 27 ویں ترمیم کی راہ ہموار ہو۔ حکومت کی اصل دلچسپی چیف جسٹس کی تعیناتی تھی، اگر کوئی عجلت تھی بھی تو اسی بات کی تھی۔ اب وہ تحمل سے درستی کا کام کر سکتے ہیں آئینی ترمیم منظور کیسے کروانا ہوتی ہے یہ ہنر تو اس مشق میں سیکھ لیا گیا ہے۔‘

شیئر: