Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پارلیمانی کمیٹی نے جسٹس یحییٰ آفریدی کو نیا چیف جسٹس نامزد کر دیا

چیف جسٹس آف پاکستان کی تعیناتی کے لیے قائم پارلیمانی کمیٹی نے جسٹس یحییٰ آفریدی کو ملک کا نیا چیف جسٹس نامزد کر دیا۔
منگل کو کمیٹی کا اجلاس پارلیمنٹ ہاؤس اسلام آباد میں ہوا جس میں سپریم کورٹ کے تین سینیئر ترین ججوں کے نام اور ان کے کوائف پر غور کیا گیا۔
وزارت قانون نے جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر اور جسٹس یحییٰ آفریدی کے بارے میں تفصیلات کمیٹی کو بھجوائی تھیں۔ کمیٹی نے دو تہائی اکثریت سے جسٹس یحییٰ آفریدی کو چیف جسٹس آف پاکستان نامزد کر دیا۔
اس حوالے سے سینیٹر اعظم نذیر تارڑ نے اردو نیوز کو بتایا کہ کمیٹی نے دو تہائی اکثریت سے جسٹس یحییٰ آفریدی کا نام منظور کر کے ایڈوائس وزیراعظم شہباز شریف کو بھیج دی ہے۔
کمیٹی میں مسلم لیگ ن کی جانب سے خواجہ محمد آصف، احسن اقبال، شائستہ پرویز ملک اور اعظم نذیر تارڑ نے شرکت کی۔ پیپلز پارٹی کے راجہ پرویز اشرف، سید نوید قمر اور فاروق نائیک موجود تھے جبکہ جے یو آئی کے سینیٹر کامران مرتضی اور ایم کیو ایم کی رعنا انصار نے اجلاس میں شرکت کی۔
تحریک انصاف کی جانب سے بیرسٹر گوہر صاحبزادہ حامد رضا اور بیرسٹر علی ظفر نے کمیٹی اجلاس کا بائیکاٹ کیا اور اجلاس میں شرکت کے لیے نہیں آئے۔
خیال رہے کہ 26ویں آئینی ترمیم کی روشنی میں حکومت چیف جسٹس کی مدت ملازمت ختم ہونے کے تین دن پہلے نئے چیف جسٹس کی تعیناتی کا نوٹیفکیشن جاری کرنے کی پابند ہے۔ تین دنوں کی شرط صرف اب کے لیے ہے جبکہ مستقبل میں یہ تعیناتی پندرہ روز قبل عمل میں لانا لازمی ہے۔
کمیٹی کی جانب سے چیف جسٹس کے نام کی سفارش کیے جانے کے بعد نام وزیراعظم شہباز شریف کو بھیجا جائے گا جو ایڈوائس کی صورت میں صدر مملکت کو بھیجیں گے۔
صدر مملکت کی جانب سے ایڈوائس پر دستخط کیے جانے کے بعد وزارت قانون کی جانب سے نئے چیف جسٹس کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا جائے گا۔
نئے چیف جسٹس 26 اکتوبر کو ایوان صدر میں اپنے عہدے کا حلف اٹھائیں گے۔
اگر نامزد کیے گئے چیف جسٹس اپنا عہدہ سنبھالنے سے انکار  کرتے ہیں تو ایسی صورت میں کمیٹی پہلے سے موجود دو سینیئر ترین ججوں کے بعد چوتھے نمبر پر موجود سینیئر جج کا نام بھی شامل کرے گی اور نئے سرے سے اس پینل پر غور کیا جائے گا۔
اسی طریقہ کار سے گزرتے ہوئے کمیٹی نئے چیف جسٹس کا نام فائنل کر کے اپنی سفارش وزیراعظم کو بھیجے گی۔

جسٹس یحییٰ آفریدی کو 2018 میں سپریم کورٹ کا جج بنا دیا گیا تھا (فوٹو: اے ایف پی)

جسٹس یحییٰ آفریدی کون ہیں؟
ڈیرہ اسماعیل خان سے تعلق رکھنے والے جسٹس یحییٰ آفریدی ایچی سن کالج اور کیمرج کے فارغ التحصیل ہیں۔ 1990 میں وکالت کا آغاز کرنے والے جسٹس یحییٰ آفریدی خیبرپختونخوا کے اسسٹنٹ ایڈووکیٹ جنرل بھی رہے۔ اور جسٹس منصور علی شاہ کی لا فرم کے پارٹنر بھی تھے۔ 2010 میں انہیں پشاور ہائی کورٹ کا جج لگایا گیا۔ سپریم کورٹ کی ویب سائٹ کے مطابق وہ فاٹا سے تعلق رکھنے والے پہلے جج تھے جو پشاور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس بنے۔ تاہم 2018 میں انہیں سپریم کورٹ کا جج بنا دیا گیا۔
تحریک انصاف کا بائیکاٹ کا فیصلہ برقرار
پاکستان تحریک انصاف نے پارلیمانی کمیٹی اور سپیکر ایاز صادق کی جانب سے اجلاس میں شرکت کی درخواست کے باوجود چیف جسٹس کی تعیناتی کے لیے قائم پارلیمانی کمیٹی کے اجلاس میں شرکت سے انکار کر دیا تھا۔
چیف جسٹس کی تعیناتی کے لیے قائم کی گئی پارلیمانی کمیٹی کے اجلاس میں کیے گئے فیصلے کے تحت چار رکنی کمیٹی سپیکر ایاز صادق کے چیمبر میں جمع ہوئی۔ کمیٹی نے سپیکر سے درخواست کی کہ تحریک انصاف کے رہنماؤں کو مدعو کر کے انہیں اجلاس میں شرکت کے لیے قائل کیا جائے۔
جس کے بعد سپیکر ایاز صادق نے قائد حزب اختلاف عمر ایوب خان اور تحریک انصاف کے چیئرمین بیرسٹر گوہر سے رابطہ کیا اور انہیں اپنے چیمبر میں بلایا۔
دوسری جانب مولانا فضل الرحمن نے سابق سپیکر اسد قیصر سے رابطہ کر کے انہیں اجلاس میں شرکت کرنے کے لیے درخواست کی۔ اسد قیصر نے مولانا فضل الرحمان کا پیغام اپنی پارٹی رہنماؤں تک پہنچا دیا۔

بیرسٹر گوہر نے کہا کہ تحریک انصاف پارلیمانی کمیٹی کے اجلاس میں شرکت نہیں کرے گی (فوٹو: قومی اسمبلی)

سپیکر ایاز صادق کی درخواست پر بیرسٹر گوہر علی خان سپیکر چیمبر گئے اور انہوں نے پارلیمانی کمیٹی کے چار ارکان سے ملاقات کی۔ کمیٹی نے تحریک انصاف سے چیف جسٹس کی تعیناتی کے عمل میں شامل ہونے کی درخواست کی۔
بیرسٹر گوہر نے معذرت کرتے ہوئے آگاہ کیا کہ سیاسی کمیٹی کے فیصلے کے تحت تحریک انصاف پارلیمانی کمیٹی کے اجلاس میں شرکت نہیں کرے گی۔
اس حوالے سے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے تحریک انصاف کے چیئرمین بیرسٹر گوہر نے بتایا کہ پارلیمانی کمیٹی نے فیصلہ کیا تھا کہ ’چونکہ یہ ترمیمی بل غیر آئینی ہے اور ہم اسے نہیں مانتے اس لیے ان ترامیم کے ذریعے چیف جسٹس کی تعیناتی کے عمل کو بھی غیر قانونی اور غیر آئینی سمجھتے ہیں۔‘
اس لیے ہم اس کا حصہ نہیں بن رہے۔ حکومت نے اپنے تئیں کوشش کی ہے لیکن ہم اپنے فیصلوں کے پابند ہیں اور ہم اپنے بیانیے سے پیچھے نہیں ہٹ سکتے۔
کمیٹی کے رکن سینیٹر کامران مرتضی نے میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ تحریک انصاف بضد ہے کہ وہ کمیٹی کے اجلاس میں شرکت نہیں کرے گی۔

شیئر: