Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پاکستانی تجارتی ٹرکوں پر غیرمساوی ٹیکس اور جرمانے، ’ایران امتیازی سلوک بند کرے‘

فیڈریشن آف انٹرنیشنل ٹرانسپورٹ کمپنی آف پاکستان کے مطابق ’ایرانی حکومت پاکستانی برآمد کنندگان کے ساتھ امتیازی سلوک کر رہی ہے۔‘ (فائل فوٹو: آئی آر یو)
پاکستان اور ایران کے تجارتی ساز و سامان سے لدے ٹرکوں کو دونوں ممالک میں سفر کرنے کی اجازت ہے، اور دو طرفہ معاہدے کے تحت ان ٹرکوں پر کسی قسم کا کوئی ٹیکس یا لیوی بھی عائد نہیں ہوتی۔
تاہم انکشاف ہوا ہے کہ پاکستان آنے والے ایرانی ٹرکوں سے پاکستانی حکام کسی قسم کا کوئی ٹیکس وصول نہیں کرتے جبکہ ایرانی حکومت پاکستان سے تجارتی ساز و سامان لے جانے والے ایرانی ٹرکوں سے تو کوئی ٹیکس نہیں لیتی لیکن پاکستانی ٹرکوں سے کئی طرح کے ٹیکس اور جرمانے وصول کیے جاتے ہیں۔
فیڈریشن آف انٹرنیشنل ٹرانسپورٹ کمپنی آف پاکستان نے وزارت خزانہ کے نام اپنے ایک خط میں لکھا ہے کہ ’پاکستانی برآمد کنندگان ایرانی ٹرکوں کو کرائے پر لے کر گوشت، کیلے اور دیگر اشیا کو پاکستان سے ایران منتقل کرتے ہیں۔ یہ ٹرک اور ڈرائیور ویزے پر پاکستان آتے ہیں اور برآمد کنندگان کی بتائی گئی منزل سے سامان اٹھاتے ہیں۔ اس دوران ان سے کسی قسم کا کوئی اضافی ٹول ٹیکس نہیں لیا جاتا۔‘
فیڈریشن کا کہنا ہے کہ ’ایرانی حکومت پاکستانی برآمد کنندگان کے ساتھ امتیازی سلوک کر رہی ہے، کیونکہ ان کا جو سامان ایرانی ٹرکوں کے بجائے پاکستانی ٹرکوں پر جاتا ہے ان سے کئی طرح کے ٹیکس اور جرمانے وصول کیے جاتے ہیں۔
خط کے مطابق’2009 میں پاک-ایران جوائنٹ کمیشن برائے روڈ ٹرانسپورٹ کا اجلاس زاہدان میں ہوا تھا، جس میں یہ طے پایا تھا کہ دونوں ممالک کی تجارتی گاڑیوں کو ایک دوسرے کی سرزمین پر آمد ورفت کے دوران کسی بھی اضافی ٹیکس یا فیس سے مستثنیٰ رکھا جائے گا۔ تاہم ایرانی حکومت اس معاہدے کی خلاف ورزی کر رہی ہے، جس سے پاکستانی برآمد کنندگان کو مشکلات کا سامنا ہے۔
’ایرانی حکومت میر جاوہ کے بعد پاکستانی ٹرکوں سے فی کلومیٹر ایک امریکی ڈالر وصول کر رہی ہے۔ یہ فیس پاکستانی ٹرکوں پر اس وقت عائد کی جاتی ہے جب وہ ایرانی حدود میں داخل ہو کر اپنی منزل مقصود تک پہنچتے ہیں۔ تاہم پاکستانی سرزمین پر ایرانی ٹرکوں کو ایسی کسی بھی فیس یا ٹیکس سے مستثنیٰ رکھا گیا ہے۔‘

پاکستانی سرزمین پر ایرانی ٹرکوں کو ایسی کسی بھی فیس یا ٹیکس سے مستثنیٰ رکھا گیا ہے۔ (فائل فوٹو: ایکس)

معاہدے کے تحت دونوں ممالک کی تجارتی گاڑیوں کو فیکٹری فٹڈ سٹینڈرڈ ڈیزل ٹینک کے ساتھ سفر کی اجازت دی گئی تھی۔ تاہم فیڈریشن نے یہ شکایت کی ہے کہ اگر ان کے ٹینک میں 50 لیٹر سے زیادہ ڈیزل موجود ہو تو ایرانی حکام پاکستانی ٹرکوں پر جرمانہ عائد کرتے ہیں۔ یہ پابندی صرف پاکستانی گاڑیوں پر لاگو ہے جبکہ ایرانی ٹرکوں کے لیے کوئی ایسا امتیازی قانون نہیں ہے۔
فیڈریشن کا کہنا ہے کہ ’پاکستانی ٹرک جب کوئٹہ سے ایران کے لیے مال لے کر روانہ ہوتے ہیں اور ایرانی حدود میں داخل ہوتے ہیں تو ایرانی حکام اضافی جرمانے کے طور پر 10 فیصد کٹوتی کرتے ہیں۔ اس کٹوتی کو اضافی جرمانے کے طور پر برآمد کنندگان سے وصول کیا جاتا ہے، جبکہ ایرانی ٹرکوں کو کوئٹہ سے ایران میں داخلے پر کسی قسم کی کٹوتی یا فیس ادا نہیں کرنی پڑتی۔
اس حوالے سے جب وزارت خزانہ سے رابطہ کیا گیا تو حکام نے بتایا کہ فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) نے اس مسئلے کی نشاندہی وزارت مواصلات کو کی ہے، جو کہ دو طرفہ ٹرانسپورٹ معاہدے کے نفاذ کی ذمہ دار ہے۔ یہ معاملہ آٹھ اور نو جولائی 2024 کو ہونے والی جوائنٹ بارڈر ٹریڈ کمیٹی (JBTC) کی میٹنگ میں بھی اٹھایا گیا تھا۔
حکام کے مطابق ’وزارت مواصلات کو مشورہ دیا گیا ہے کہ وہ وزارت خارجہ کے ذریعے یہ معاملہ ایرانی حکام کے سامنے اٹھائے تاکہ پاکستانی ٹرکوں کے ساتھ امتیازی سلوک کا خاتمہ کیا جا سکے۔

ایرانی حکومت پاکستان سے تجارتی ساز و سامان لے جانے والے ایرانی ٹرکوں سے کوئی ٹیکس نہیں لیتی۔ (فائل فوٹو: ارنا)

اس حوالے سے پاک ایران جوائنٹ چیمبر آف کامرس کا کہنا ہے کہ پاکستان اور ایران کے درمیان طے پانے والے معاہدے کے باوجود ان حالیہ مشکلات نے دونوں ممالک کے تجارتی تعلقات پر منفی اثر ڈالا ہے۔
پاکستان کے برآمد کنندگان کے مطابق ان امتیازی اقدامات سے نہ صرف تجارتی لاگت میں اضافہ ہوتا ہے بلکہ تجارتی تعلقات میں بھی تناؤ پیدا ہوتا ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان موجودہ حالات کے پیش نظر یہ ضروری ہے کہ ایرانی حکام پاکستان کے ساتھ ہونے والے معاہدے کی پاسداری کریں اور پاکستانی ٹرکوں کے ساتھ منصفانہ رویہ اپنائیں۔

شیئر: