بینکنگ چینل کے ذریعے ادائیگیوں کا حکم، بلوچستان میں ایران کے ساتھ تجارت متاثر
بینکنگ چینل کے ذریعے ادائیگیوں کا حکم، بلوچستان میں ایران کے ساتھ تجارت متاثر
منگل 29 اکتوبر 2024 6:10
زین الدین احمد -اردو نیوز، کوئٹہ
کوئٹہ چیمبر آف کامرس کے صدر کے مطابق ایران کی سرحد پر سینکڑوں کنٹینرز پھنسے ہوئے ہیں۔ فائل فوٹو: اے ایف پی
’میرا ٹماٹر سے بھرا کنٹینر ایک ہفتے سے تفتان سرحد پر کھڑا رہا، تمام تر رابطوں اور کوششوں کے باوجود کنٹینر کو جانے نہیں دیا گیا جس کی وجہ سے ٹماٹر خراب ہو گئے اور مجھے لاکھوں روپے کا نقصان ہوا۔‘
پاکستانی تاجر حاجی عبداللہ ایران سے ٹماٹر پاکستان درآمد کرتے ہیں لیکن گزشتہ بارہ دنوں سے پاکستان اور ایران کے درمیان تجارت ایک قانونی اور تکنیکی مسئلے کی وجہ سے بند ہے جس کی وجہ سے حاجی عبداللہ سمیت دونوں ممالک کے درمیان تجارت کرنے والے تاجروں کو کروڑوں روپے کے نقصان کا سامنا ہے۔
حاجی عبداللہ کہتے ہیں کہ دونوں ممالک کے درمیان بینکنگ چینل موجود نہیں جس کی وجہ سے مال کے بدلے مال یا دوسرے ذرائع استعمال کرتے ہوئے تجارت ہورہی تھی لیکن اچانک دس بارہ روز پہلے حکام نے یہ کہہ کر سرحد پر سینکڑوں کنٹینرز کو روک لیا کہ بینکنگ چینل کے ذریعے تجارتی ادائیگیوں کا ثبوت پیش کرنے کے بعد ہی کنٹینرز کو کلیئر کیا جائے گا۔
تفتان سرحد پر تعینات کسٹم حکام نے تصدیق کی کہ پرانے سرکاری احکامات کی بحالی کے بعد دونوں ممالک کے درمیان تجارت 17 اکتوبر سے بند ہے۔
کوئٹہ چیمبر آف کامرس کے صدر محمد ایوب میریانی نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایاکہ نہ صرف ایران بلکہ افغانستان کے ساتھ بھی تجارت بند ہو گئی ہے۔ ایران کی سرحد پر تقریباً 1500 کنٹینرز پھنسے ہوئے ہیں جن میں پھل اور سبزیوں سمیت جلد خراب ہونے والی اشیا بھی لدی ہوئی ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ انگور سے لدے ایک کنٹینر کی قیمت ایک کروڑ روپے سے زائد ہے لیکن دس دنوں سے بارڈر پر پھنسے ہونے کی وجہ سے اس سے پانی بہنا شروع ہو گیا ہے۔ اس کے علاوہ ایل پی جی گیس لانےوالے ٹینکرز بھی سینکڑوں کی تعداد میں پھنسے ہوئے ہیں اگر یہ پابندی جلد ختم نہ کی گئی تو ملک میں ایل پی جی کی قیمتوں میں اضافہ ہو سکتا ہے۔
محمد ایوب نے بتایا کہ ایل پی جی ٹینکرز گیس سے بھرے ہوتے ہیں اور کسی بھی حادثے کی صورت میں بڑے جانی نقصان کا خطرہ ہے۔
کوئٹہ چیمبر آف کامرس کے صدر کے مطابق یہ بحران بلوچستان ہائی کورٹ کی جانب سے ایک حکم امتناعی واپس لینے کے بعد پیدا ہوا ہے۔ انہوں نے مزید وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ ’پاکستانی حکومت نے 2016 میں پہلی دفعہ ایران اور افغانستان کے ساتھ تجارت کے لیے بینکنگ چینلز کے ذریعے ادائیگیوں کو لازمی قرار دیا جس کے خلاف ہم نے بلوچستان ہائی کورٹ میں اپیل دائر کی کہ دونوں ممالک کے ساتھ پاکستان کا بینکنگ چینل نہیں۔‘
محمد ایوب کے مطابق ’ایران پر عالمی پابندیاں ہیں اس لیے بینکنگ چینل کے قیام تک تاجروں کو ریلیف فراہم کیا جائے تاکہ ہماری درآمدات اور برآمدات متاثر نہ ہوں۔ ہائیکورٹ نے اس پر حکم امتناع جاری کرتے ہوئے تاجروں کو بارٹر ٹریڈ یعنی مال کے ذریعے مال اور دوسرے ذرائع استعمال کرتے ہوئے تجارت کی اجازت دے دی تھی۔‘
انہوں نے بتایا کہ گزشتہ آٹھ برس سے تاجر مختلف ذرائع سے ادائیگیاں کرتے ہوئے یا مال کے ذریعے مال خرید کر تجارت کر رہے تھے لیکن 16 اکتوبر کو آخری سماعت پر ہائیکورٹ نے حکم امتناع واپس لیتے ہوئے ریلیف ختم کر دیا جس کی وجہ سے 2016 کا حکم نامہ واپس بحال ہو گیا۔
تاجروں کا کہنا ہے کہ عدالتی حکم کے بعد افغانستان سے تجارت بھی متاثر ہوئی ہے۔ فائل فوٹو: اے ایف پی
ان کا کہنا تھا کہ افغانستان اور ایران دونوں پر عالمی پابندیاں ہیں دونوں کے ساتھ پاکستان کا کوئی بینکنگ چینل نہیں لہٰذا بینک کے ذریعے ادائیگیاں ممکن ہی نہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ بارہ روز گزرنے کے باوجود حکومت کی جانب سے مسئلے کا حل نہیں نکالا جا رہا جس کی وجہ سے تاجروں کو کروڑوں روپے کا نقصان ہو چکا ہے۔
کوئٹہ چیمبر آف کامرس کے صدر کے مطابق عدالت نے فیصلہ دیا ہے کہ بارٹر ٹریڈ کا طریقہ اپنایا جائے۔ حکومت پاکستان نے پچھلے بجٹ میں بارٹر ٹریڈ سے متعلق ایس آر او جاری کیا ہے لیکن اس پر عملدرآمد میں بھی بڑے مسئلے ہیں، ’مثال کے طور پر ایک تاجر پاکستان سے سو ٹن چاول ایران بھیجے گا تو وہاں سے ہی سو ٹن پستہ یا کوئی دوسرا سامان لائے گا تاکہ وہ بیلنس ہو سکے ۔ اس میں مسئلہ یہ ہے کہ جو شخص 30 برس سے ایکسپورٹ کر رہا ہے اسے امپورٹ کا کام نہیں آتا اور وہ نہیں کرنا چاہتا۔ ہر تاجر اپنے کام کے طریقے کو خفیہ رکھتا ہے اس کے اپنے طریقے اور تجارتی راز ہوتے ہیں۔‘
ان کا کہنا ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان تجارت میں توازن نہیں۔ پاکستان سے ایران کے لیے ایکسپورٹ کم اور ایران سے امپورٹ زیادہ ہیں، اس میں کھربوں روپے کا فرق ہے اس لیے بارٹر ٹریڈ میں بڑی مشکلات ہیں۔
تاجر رہنما کا کہنا تھا کہ حکومت کو پرانے طریقے کو بحال کرتے ہوئے تاجروں کو آسانیاں دینی چاہیں تاکہ تجارتی سرگرمیاں دوبارہ بحال ہوں۔ ’سب سے بڑی بات یہ ہے کہ یہ ساری تجارت بغیر ڈالر کے ہو رہی تھی جس سے ملک کو فائدہ ہو رہا تھا اس کے علاوہ بلوچستان سے سرحدی تجارت سے ایف بی آر سالانہ 130 ارب روپے ٹیکس جمع کرتا ہے سرحدی تجارت متاثر ہونے سے ٹیکس کی مد میں حکومت کو بھی بھاری نقصان ہو گا۔‘