Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

9 نومبر کا جلسہ، وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور کی حکمت عملی کامیاب ہوگی؟

وزیراعلیٰ کے اعلان کے بعد کارکنان صوابی میں جلسے کی تیاری میں مصروف ہیں (فوٹو: اے ایف پی)
خیبر پختونخوا کے وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور نے پی ٹی آئی کے بانی عمران خان کی رہائی کی تحریک کے لیے فائنل کال دے دی ہے۔
انہوں نے اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ 9 نومبر کو صوابی موٹروے پر بڑا جلسہ منعقد ہوگا جس میں تمام مرکزی قیادت شریک ہوگی۔
’جلسہ گاہ جاتے وقت سر پر کفن باندھ کر جائیں گے اس کے بعد اگلا لائحہ عمل عوام کے سامنے پیش کیا جائے گا۔‘
وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا نے پشاور کے صحافیوں کو بتایا کہ ’صوابی جلسہ فیصلہ کُن دن ہوگا۔ اس دن جرگے کی شکل میں سب بیٹھ کر ایک قرارداد پیش کریں گے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’9 نومبر کے روز فائنل کال دیں گے جس کے بعد پورے ملک میں احتجاج کیا جائے گا اور وہ آخری کال ہوگی۔‘

کیا وزیراعلیٰ کی کال پر ورکرز نکلیں گے؟

وزیراعلیٰ کے اعلان کے بعد پاکستان تحریک انصاف کے کارکنان صوابی میں جلسے کی تیاری میں مصروف ہیں۔ پی ٹی آئی کے دیرینہ کارکن پُرامید ہیں کہ علی امین گنڈاپور کی حکمت عملی کامیاب ہوگی تاہم کچھ کارکنوں کا خیال ہے کہ وزیراعلیٰ پھر نئی تاریخ دیں گے۔
ان کی رائے ہے کہ وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور کے اسلام آباد میں منظرِعام سے غائب ہونے کے بعد کارکن عدم اعتماد کا شکار ہو گئے ہیں جسے ختم کرنے کے لیے وزیراعلیٰ کو حتمی فیصلہ کرنا پڑے گا۔
وزیراعلی خیبرپختونخوا کی جانب سے تمام کابینہ کے اراکین کو زیادہ سے زیادہ کارکن صوابی لانے کی ہدایت کی گئی ہے جبکہ انہوں نے فی رکن صوبائی اسمبلی کو 500 کارکنان جلسہ گاہ لانے کا کہا ہے۔
دوسری جانب پی ٹی آئی کےضلعی قائدین کو ویلج کونسل سطح پر کارکنوں کو موبلائز کرنے کا ٹاسک سونپا گیا ہے۔
صوبائی وزیر پختون یار نے مؤقف اپنایا ہے کہ ملک گیر احتجاج سے متعلق فیصلہ مشاورت سے کیا جائے گا اور اسی سلسلے میں صوابی میں بڑا جرگہ ہوگا۔
’جرگے میں ایک نکاتی ایجنڈا ہوگا اور وہ ہے کہ عمران خان کی رہائی کے لیے احتجاج کیسے کرنا ہے۔‘

تجزیہ کار صفی اللہ سمجھتے ہیں کہ وزیراعلیٰ اس بار بھی دھمکیوں سے کام لے رہے ہیں۔ (فوٹو: اے ایف پی)

ان کا کہنا ہے کہ رہنماؤں سے زیادہ  ورکرز اور عام شہری بے تاب بیٹھے ہیں کہ کب احتجاج ہوگا۔ ’وزیراعلیٰ پر ورکرز کی جانب سے بہت دباؤ ہے مگر علی امین گنڈاپور تمام قائدین کو ساتھ لے کر چلنا چاہتے ہیں تاکہ مشاورت سے فیصلہ ہو۔‘

’نو نومبر بڑا ایکشن نہیں ہوگا‘

پشاور کے سینیئر صحافی محمد فہیم کے مطابق پی ٹی آئی نے اس سے پہلے جو کیا وہی طریقہ صوابی میں اپنائے گی۔
’کوئی بڑا جلسہ نہیں ہوگا اور نہ کوئی غیر معمولی اقدام کریں گے۔ پی ٹی آئی کی قیادت مزید وقت چاہتی ہے اسی لیے وہ صوابی میں جلسہ کرکے مزید وقت دیں گے۔‘
اُردو نیوز سے گفتگو میں سینیئر صحافی محمد فہیم نے کہا کہ ’کارکنوں کے ساتھ ساتھ مرکزی قیادت کی طرف سے بہت پریشر ہے کہ کچھ کرکے دکھاؤ۔
اس دباؤ کو کم کرنے کے لیےاحتجاج ہوگا  تاہم اس بار بھی کوئی بڑا ایکشن نہیں ہوگا۔ پارٹی قیادت تقریر کرکے گھروں کو چلے جائیں گے۔‘ 
تجزیہ کار صفی اللہ سمجھتے ہیں کہ وزیراعلیٰ اس بار بھی دھمکیوں سے کام لے رہے ہیں تاکہ وفاق کوئی سخت ایکشن لے۔
دوسری جانب وزیراعلیٰ نے ڈی چوک میں گرفتار سرکاری ملازمین کی رہائی پر انہیں مراعات دینے کا اعلان کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس اقدام سے دیگر سرکاری ملازمین بھی پی ٹی آئی کے جلسے میں شریک ہوں گے۔
صفی اللہ کے مطابق پی ٹی آئی کے اندرونی اختلافات بھی سامنے آچکے ہیں۔ پارٹی کے بعض رہنما نہیں چاہتے کہ علی امین گنڈا پور تحریک میں کامیاب ہو۔ 
’9 نومبر کو جلسے میں تقاریر کرکے پھر ایک نئی تاریخ کا اعلان کیا جائے گا۔‘
مسلم لیگ ن خیبرپختونخوا کے ترجمان ارباب خضر حیات نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ’وزیراعلیٰ بار بار وفاق کو چیلنج کرکے بغاوت کر رہے ہیں۔ سر پر کفن باندھ کرکے عمران خان کو چُھڑانے کی باتیں وزیراعلیٰ کو ذیب نہیں دیتیں۔‘
انہوں نے کہا کہ تحریک انصاف کی سیاست دھرنوں اور جلسے جلوسوں سے آگے نہ بڑھ سکی۔ اگر ان کی یہی حالت رہی تو اس صوبے میں ن لیگ اور اتحادیوں کی حکومت ہوگی۔

شیئر: