گرنیل سنگھ اور دھرم راج کشیپ کو حملے کے فوراً بعد گرفتار کر لیا گیا تھا، تاہم شیو کمار گرفتاری سے بچ نکلا تھا۔
اتر پردیش سے تعلق رکھنے والے ملزم کو مقامی پولیس، ممبئی پولیس اور ایس ٹی ایف نے ایک مشترکہ کارروائی میں بہرانچ کے علاقے نانپارہ سے گرفتار کیا۔
پولیس کا کہنا ہے کہ تفتیش کے دوران ملزم نے بتایا کہ وہ قتل سے کچھ روز قبل ممبئی پہنچے تھے اور چند روز نیشنلسٹ کانگرس پارٹی کے رہنما بابا صدیقی کی نگرانی کرتے رہے، پھر 12 اکتوبر کو موقع ملنے پر ان کو قتل کر دیا۔
شیو کمار نے یہ اعتراف بھی کیا کہ اس کا بشنوئی گینگ سے تعلق ہے اور قتل انمول بشنوئی کے حکم پر کیا گیا جو جیل میں قید گینگسٹر لارنس بشنوئی کے بھائی ہیں۔
جائے واردات سے فرار ہونے کے بعد شیو کمار نے بشنوئی گینگ کے بعض دوسرے ارکان سے ملاقات کے لیے مدھیہ پردیش کے علاقے اوم کاریشور کا سفر کیا۔
رپورٹ کے مطابق ممبئی پولیس نے اس سفر کے دوران ہی اس کی لوکیشن کو ٹریس کر لیا تاہم وہ اس کو پکڑنے میں ناکام رہی۔
اس کے بعد پولیس نے شیوکمار کے خاندان اور قریبی ساتھیوں سمیت تقریباً 45 افراد کی نقل و حرکت پر نظر رکھنا شروع کی اور جلد ہی ملزم کے ساتھ مسلسل میں رہنے والے چار افراد کی نشاندہی ہو گئی۔
شیو کمار کی رہائش گاہ کے قریب ایک بظاہر بند گھر کے بارے میں پولیس کو شک پیدا ہوا کہ اسے سیف ہاؤس کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے اور بعدازاں وہاں چھاپہ مار کر شیو کمار اور چار ساتھیوں کو گرفتار کر لیا۔
انوراگ کشیپ، گیان پرکاش، آکاش سریواستو اور اکھیلیشندرا پرتاپ سنگھ کو شیو کمار کو پناہ دینے اور فرار ہونے میں مدد دینے کے الزامات کے تحت گرفتار کیا گیا ہے۔
اس کیس میں 20 دوسرے افراد کو بھی گرفتار کیا گیا ہے۔
ممبئی پولیس کا کہنا ہے کہ بابا صدیقی کے بیٹے ذیشان صدیقی اور ایک ایم ایل اے بھی ملزموں کے اہداف میں شامل تھے۔ جس کی تصویر ان تین افراد میں سے ایک کے موبائل فون میں موجود تھی جن کو بابا صدیقی کے قتل کے بعد گرفتار کیا گیا تھا۔
بابا صدیقی سلمان خان اور شاہ رخ خان کے قریبی دوستوں میں شمار ہوتے تھے اور بالی وڈ ستاروں کے لیے افطار پارٹیوں کا اہتمام کرنے کے حوالے سے مشہور تھے۔
واقعے کے بعد ان کے قتل کی ذمہ داری بشنوئی گینگ نے قبول کی تھی اور ان کے بیٹے کو بھی قتل کرنے کی دھمکی دی تھی۔