امریکی نوجوان کے اہلخانہ کی بائیڈن اور ٹرمپ سے یرغمالیوں کی واپسی کی درخواست
کچھ خاندان کو اُمید ہے کہ ان کے پیاروں کی گھر واپسی کی کوششیں تیز ہو جائیں گی (فوٹو: اے پی)
گزشتہ دو ہفتوں کے دوران غزہ میں جنگ بندی کے لیے ہونے والے مذاکرات کے گرد سیاسی منظر نامے میں ڈرامائی تبدیلی آئی ہے۔
خبر رساں امریکی انتخابات، اسرائیل کے مقبول وزیر دفاع کی برطرفی، قطر کی جانب سے اپنی ثالثی کو معطل کرنے کا فیصلہ اور لبنان میں جاری جنگ نے غزہ میں جنگ بندی کے امکان کو مزید کم کر دیا ہے۔
اگرچہ ابھی تک یہ واضح نہیں ڈونلڈ ٹرمپ کی وائٹ ہاؤس میں واپسی اور اسرائیل میں سخت گیر نئے وزیر دفاع کے کیا اثرات ہوں گے تاہم، یرغمالیوں کے کچھ خاندان کو اُمید ہے کہ ان کے پیاروں کی گھر واپسی کی کوششیں پھر سے تیز ہو جائیں گی۔
سات اکتوبر 2023 کو حماس کے حملے کے دوران غزہ کی سرحد پر اپنے اڈے سے اغوا ہونے والے فوجی اہلکار 20 سالہ اسرائیلی-امریکی ایڈن الیگزینڈر کی دادی وردا بین بارچ نے کہا کہ ’میرے خیال میں شاید نئی اُمید ہے۔‘
ایڈن الیگزینڈر کے والدین اڈی اور یائل الیگزینڈر جو نیو جرسی میں رہتے ہیں، نے رواں ہفتے واشنگٹن میں ڈونلڈ ٹرمپ اور صدر جو بائیڈن سے ملاقات کی اور ان سے درخواست کی کہ ایک ہی معاہدے میں تمام یرغمالیوں کو گھر واپس لانے کے لیے مل کر کام کریں۔
بین بارچ نے کہا کہ ’ایک دادی کی حیثیت سے، میں کہتی ہوں تعاون کریں۔ ٹرمپ اس خطے میں امن چاہتے ہیں، بائیڈن نے ہمیشہ کہا ہے کہ وہ یرغمالیوں کو رہا کرنا چاہتے ہیں، اس لیے مل کر کام کریں اور انسانوں کی زندگیوں کے لیے کچھ اہم کریں۔‘
انہوں نے کہا کہ کسی بھی رہنما نے یرغمالیوں کی رہائی یا غزہ جنگ بندی کے لیے مذاکرات دوبارہ شروع کرنے کے بارے میں کوئی خاص تفصیلات یا منصوبہ پیش نہیں کیا۔
’ہم سیاست میں شامل نہیں ہیں، نہ ہی امریکی اور نہ ہی اسرائیلی۔ خاندان سیاست سے بالاتر ہیں، ہم صرف اپنے پیاروں کو اپنے گھر چاہتے ہیں۔ ایڈن کو اس لیے اغوا کیا گیا کیونکہ وہ یہودی تھا، اس لیے نہیں کہ اس نے کسی خاص پارٹی کو ووٹ دیا تھا۔‘
سات اکتوبر کے حملے میں حماس نے 250 سے زائد افراد کو یرغمال بنایا تھا جبکہ 1,200 افراد مارے گئے تھے۔ غزہ کی وزارت صحت کے مطابق اسرائیل کی جوابی کارروائی کے نتیجے میں اب تک 43,000 سے زیادہ فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں۔