Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

فرینکلی سپیکنگ: فلسطینی ڈونلڈ ٹرمپ کی نئی صدارت کو کیسے دیکھتے ہیں؟

فلسطینی وزیر مملکت فارسین آغابکیان شاہین کا کہنا تھا کہ ’ہمیں پُرامید رہنا ہوگا‘ (فوٹو: عرب نیوز)
اگرچہ امریکہ کے نو منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی سابقہ انتظامیہ کو اسرائیل کی کٹر اتحادی کے طور دیکھا جاتا تھا تاہم، فلسطین کی وزیر مملکت برائے خارجہ امور اور تارکین وطن فارسین آغابکیان شاہین کا کہنا ہے کہ فلسطینی ان کی وائٹ ہاؤس میں واپسی سے پُرامید ہیں۔
عرب نیوز کے کرنٹ افیئرز کے پروگرام ’فرینکلی سپیکنگ‘ کو انٹرویو میں فلسطینی وزیر مملکت برائے خارجہ امور فارسین آغابکیان شاہین نے کہا کہ ’مجھے پُرامید رہنا ہوگا۔ ہمیں پُرامید رہنا ہوگا۔ تاہم، اُن کے پُرامید ہونے کی وجہ دہائیوں کی وہ مایوسی اور بےچینی ہے جو فلسطینیوں نے اسرائیل کے زیر تسلّط محسوس کی۔
انہوں نے ’فرینکلی سپیکنگ‘ کی میزبان کیٹی جینسن کو بتایا کہ ’ہم جس چیز کی اُمید کر رہے ہیں وہ ہمیشہ کی طرح ہماری خودمختاری اور خود ارادیت کے ساتھ ایک فلسطینی ریاست (کا قیام) ہے۔‘
ڈونلڈ ٹرمپ کے پہلے دور میں یروشلم کو اسرائیل کے دارالحکومت کے طور پر تسلیم کرنے اور امریکی سفارت خانے کو تل ابیب سے وہاں منتقل کرنے جیسے متنازع اقدامات کیے گئے تھے تاہم، فارسین آغابکیان شاہین سمجھتی ہیں کہ تبدیلی کا امکان ہے۔
انہوں نے کہا کہ امریکہ میں آنے والے صدر سے بھی ہماری اُمید یہی ہے۔ ہمیں اُمید ہے کہ صدر ٹرمپ زیادہ متوازن انداز اپنائیں گے اور فلسطینیوں کے حقوق کو اپنے ایجنڈے میں شامل کریں گے۔‘
ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے گذشتہ دورِ حکومت میں ابراہیم معاہدے کے تحت عرب ریاستوں اور اسرائیل کے درمیان معمول کے معاہدوں کی حمایت کی تھی تاہم، فارسین آغابکیان کا کہنا ہے کہ ’اگر فلسطینیوں کے حقوق کو مدّنظر نہیں رکھا گیا تو پائیدار امن ممکن نہیں ہوگا۔‘
ڈونلڈ ٹرمپ کے سابقہ دور سے تقابل کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’اب فلسطینی ریاست کے معاملے پر عالمی مومینٹم بن چکا ہے۔ میرے خیال میں آج کا زمانہ کچھ سال پہلے سے مختلف ہے۔‘

فلسطینی وزیر نے کہا کہ ’ہمیں اُمید ہے کہ صدر ٹرمپ زیادہ متوازن انداز اپنائیں گے اور فلسطینیوں کے حقوق کو اپنے ایجنڈے میں شامل کریں گے‘ (فوٹو: روئٹرز)

فارسین آغابکیان نے کہا کہ ’غزہ میں جاری نسل کشی، یورپ کے تمام دارالحکومتوں میں بڑھتا ہوا دباؤ اور عدم اطمینان اور آج سعودی عرب کی قیادت میں ریاست فلسطین کو عملی جامہ پہنانے کے لیے اتحاد - یہ نئی جہتیں ہیں جنہیں نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔‘
سعودی عرب کی سفارتی اور انسانی کوششوں کو سراہتے ہوئے فارسین آغابکیان شاہین نے کہا کہ ’دو ریاستی حل کو تیز کرنے میں مدد کے لیے مملکت کی سربراہی میں ایک نیا بین الاقوامی اتحاد فلسطینیوں کے لیے امید کا ایک ذریعہ ہے۔‘
عرب لیگ اور اسلامی تعاون تنظیم کے مشترکہ سربراہی اجلاس نے اس مقصد کو مزید تقویت دی۔ یہ اجلاس 11 نومبر کو سعودی دارالحکومت میں منعقد ہوا تھا جس میں  57 عرب اور اسلامی ممالک کے رہنماؤں نے دہائیوں پُرانے تنازع کو ختم کرنے کے لیے اسرائیل پر مذاکرات کے لیے زور دیا۔
فارسین آغابکیان شاہین کا کہنا تھا کہ ’سعودی عرب نے فلسطینی عوام کی امداد اور ان کے ساتھ تعاون میں بہت اہم کردار ادا کیا ہے۔ ریاض میں ہونے والی سربراہی کانفرنس بہت اہم پیغام ہے۔ اجلاس میں 57 ممالک نے شرکت کی جس میں واضح فیصلوں اور قبضے کو ختم کرنے پر توجہ مرکوز کی گئی۔‘
سعودی عرب نے واضح طور پر اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کو فلسطینی ریاست کی ترقی سے منسلک کیا۔ انہوں نے کہا کہ یہ ایک بہت اہم قدم ہے جو فلسطینی عوام کو بہت سی اُمیدیں دلاتا ہے۔‘
حالیہ مشترکہ سربراہی اجلاس کے دوران سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے غزہ میں اسرائیل کے اقدامات کو ’نسل کشی‘ قرار دیا تھا۔
اسرائیل کے بہت سے مغربی اتحادیوں سمیت کئی ممالک نے اس اصطلاح کو استعمال کرنے سے گریز کیا ہے۔
فلسطینی وزیر مملکت نے کہا کہ ’اگر غزہ میں خدانخواستہ تین لاکھ افراد بھی مارے جائیں تو کچھ ممالک اسے نسل کشی نہیں کہیں گے۔ جو کچھ ہو رہا ہے وہ ایک انسانی تباہی ہے۔ حکومتوں اور عوام کو زیادہ سے زیادہ احساس ہو رہا ہے کہ یہ مظالم جاری نہیں رہ سکتے۔‘

فارسین آغابکیان شاہین نے کہا کہ غزہ کے شہری ایک کھلی فضا کی جیل میں رہ رہے ہیں (فوٹو: اے ایف پی)

اس سوال کے جواب میں کہ کیا حماس نے غزہ میں ہونے والے قتل عام کو شروع کرنے کی ذمہ داری قبول کی ہے، فارسین آغابکیان شاہین نے فلسطینی عسکریت پسند گروپ کی براہِ راست مذمت نہیں کی بلکہ تشدد کو ہوا دینے والے حالات کی جانب توجہ مرکوز رکھی۔
انہوں نے کہا کہ ’سب سے پہلے تو وہ جارحانہ قبضہ ذمہ دار ہے جو سات دہائیوں سے فلسطینیوں کی زندگیاں تنگ کر رہا ہے۔ غزہ کے شہری ایک کھلی فضا کی جیل میں رہ رہے ہیں۔ جب لوگوں کو بطور انسان ایک کونے میں دھکیل دیا جائے اور انہیں کوئی اُمید کی کرن نظر نہ آ رہی ہو تو ظاہر ہے کہ تشدد پھوٹ پڑتا ہے۔‘
فارسین آغابکیان شاہین نے مزید کہا کہ ’لوگ اپنے بچوں کا بہتر مستقبل چاہتے ہیں۔ یہ بہتر مستقبل قبضے کے تحت ممکن نہیں ہو سکتا۔ ہم آج جس چیز کی امید کرتے ہیں وہ وہی ہے جس کی ہم نے ہمیشہ اُمید کی ہے: ایک پُرامن خودمختار فلسطینی ریاست۔‘
فلسطینی وزیر مملکت فارسین آغابکیان شاہین سمجھتی ہیں کہ نئی امریکی انتظامیہ کو تنازع کی بنیادی وجوہات کو حل کرنا ہوگا۔ ’فلسطینیوں کے لیے انصاف کے بغیر پائیدار امن قائم نہیں ہو سکتا۔‘

شیئر: