Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

امریکی صحافی فرید زکریا سعودی عرب میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کو کیسے دیکھتے ہیں؟

فرید ذکریا نے کہا کہ وہ محسوس کرتے ہیں کہ سعودی عرب میں کئی سطحوں پر تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں۔ (فوٹو: سکرین گریب)
امریکی خبر رساں ادارے سی این این کے صحافی، مصنف اور سیاسی تجزیہ نگار فرید زکریا نے کہا ہے کہ سعودی عرب میں ہونے والی تبدیلیاں کو مستقبل میں ایک انقلاب سے کم نہیں سمجھی جائیں گی، لیکن یہ (تبدیلیاں) ’فطری انداز‘ میں رونما ہوئی ہیں۔
سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض سے نشر ہونے والے عرب نیوز کے پروگرام ’فرینکلی سپیکنگ‘ میں بات کرتے ہوئے فرید زکریا نے کہا کہ وہ محسوس کرتے ہیں کہ سعودی عرب میں کئی سطحوں پر تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں۔
انہوں نے ’فرینکلی سپیکنگ‘ کی میزبان کیٹی جینسن سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’جن سے میں سب سے زیادہ متاثر ہوں، وہ یقیناً خواتین کا کردار ہے، لیکن میں (تمام) سعودیوں کے کردار سے بھی متاثر ہوں۔ اور یہ میرے لیے ایک بہت ہی دلچسپ ہے۔‘
’ایسے شعبے ہیں جہاں (سعودی عرب) بہت تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے جبکہ کچھ ایسے شعبے ہیں جہاں ابھی بھی کچھ حد تک روک لگائی جا رہی ہے۔  میں متاثر ہوں کہ وہ توازن قائم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، کہ وہ کچھ چیزوں کو آگے بڑھانے اور کچھ شعبوں کو جدید بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘
اپنی اس بات کی مزید وضاحت کرتے ہوئے فرید زکریا نے کہا کہ ’خواتین کا کردار واقعی بدل گیا ہے، لیکن اب بھی اس کی ضرورت سمجھی جاتی ہے کہ وہ سعودی روایتی لباس پہنیں۔ اس لیے کہ سعودی عرب اس انداز میں توازن قائم کرنے کی کوشش کر رہا ہے کہ وہ زیادہ انقلابی نہ بن جائے۔‘
تاہم انہوں نے مجموعی طور پر تبدیلی کے حوالے سے کہا کہ ’جب آپ اسے تاریخی لحاظ سے دیکھتے ہیں تو واضح طور پر یہ ایک انقلاب نظر آئے گا۔ لیکن یہ انقلاب محتاط انداز میں فطری طریقے سے چلایا جا رہا ہے، تاکہ تبدیلیوں کا بار محسوس نہ ہو۔‘

فرید زکریا نے کہا کہ ’سعودی عرب میں خواتین کا کردار واقعی بدل گیا ہے۔‘ (فوٹو: سکرین گریب)

امریکی صحافی نے خلیج عرب کے وسیع خطے کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے اس بات کا اعتراف کیا کہ وہ کئی برس تک شکوک و شبہات کا شکار رہے اور اس خطے کے ممالک کو ’کافی غیرفعال‘ سمجھتے رہے۔
انہوں نے کہا کہ ’اگر آپ 1950، 60، 70 کی دہائیوں پر نظر ڈالیں تو عرب دنیا کی تعریف اس کی بڑی، بڑی ریاستوں سے کی گئی تھی جو تاریخی طور پر اہم تھیں: مصر، شام، عراق۔ پھر 70 کی دہائی میں، آپ شاید ایران اور اسلامی انقلاب کے گرد ہنگامہ خیز دور سے گزرے۔‘
’لیکن آج جو بات واضح ہے وہ یہ ہے کہ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، قطر اور بحرین سے شروع ہونے والی عرب خلیجی ریاستیں کا قائدانہ کردار ہے اور وہ خطے کو استحکام، اقتصادی انضمام، زیادہ باہمی انحصار، مزید ممالک کے ساتھ مزید تعلقات کی جانب لے جانے کی کوشش کر رہی ہیں۔‘

شیئر: