Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

فرینکلی سپیکنگ: بائیڈن کا امن منصوبہ - بہت معمولی، بہت دیر سے؟

ہالا رہیریٹ امریکی محکمہ خارجہ کی عربی زبان کی ترجمان تھیں جنہوں نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا۔ فوٹو: اے ایف پی
غزہ پر بائیڈن حکومت کے مؤقف سے بددل ہو کر امریکی محکمہ خارجہ سے مستعفی ہونے والی ہالا رہیریٹ نے صدر جو بائیڈن کی امن تجویز کو سراہتے ہوئے کہا ہے کہ ’امید ہے کہ اس سے مصائب میں کچھ کمی آئے گی۔ ہمیں انتظار کرنا پڑے گا اور دیکھنا پڑے گا۔‘
تاہم انہوں نے تشویش کا اظہار کیا کہ امریکہ اسرائیل کو ہتھیاروں کی فروخت جاری رکھ کر بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کر رہا ہے۔
ہالا رہیریٹ امریکی محکمہ خارجہ کی عربی زبان کی ترجمان تھیں جنہوں نے 24 اپریل کو اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا۔
عرب نیوز کے کرنٹ افیئرز کے پروگرام ’فرینکلی سپیکنگ‘ میں گفتگو کرتے ہوئے رہیرٹ نے کہا کہ وہ صدر بائیڈن کی طرف سے غزہ میں جنگ بندی کا مطالبہ سن کر خوش ہوئیں، لیکن انہوں نے خبردار کیا کہ امن منصوبے میں نہ تو اسرائیل کو امریکی ہتھیاروں کی فروخت پر توجہ دی گئی ہے اور نہ ہی فلسطینی ریاست بنانے کا عزم ظاہر کیا گیا ہے۔
صدر بائیڈن نے 31 مئی کو تین مرحلوں پر مشتمل جنگ بندی کی تجویز کا خاکہ پیش کیا، جس کا آغاز اسرائیلی فوجیوں کے غزہ کے شہروں سے انخلاء، انسانی امداد پہنچانے، اور حماس کی طرف سے کچھ یرغمالیوں کو واپس کرنے اور اس کے بدلے سینکڑوں فلسطینی قیدیوں کو رہا کرنے کی تجویز شامل ہے۔
منصوبے کے تحت، متحارب فریق اس کے بعد یرغمالیوں کی مکمل رہائی اور فوجی انخلا پر بات چیت کریں گے، جس کے بعد حماس کو دوبارہ مسلح کیے بغیر غزہ کی تعمیر نو کے لیے کثیر الجہتی بات چیت ہوگی۔
امریکی صدر کی تجویز کے ایک ہفتہ گزرنے کے باوجود دنیا اب بھی ان علامات کا انتظار کر رہی ہے کہ جنگ بندی کی اپیل پر کام شروع ہو۔
رہیریٹ نے انٹرویو کے دوران ’فرینکلی سپیکنگ‘ کی میزبان کیٹی جینسن کو بتایا کہ ’سب سے پہلے اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ لڑائی کو روکا جائے اور کسی بھی ضروری طریقے سے تشدد کو روکا جائے۔‘
انہوں نے انٹرویو میں دیگر موضوعات کے علاوہ محکمہ خارجہ سے اپنے استعفے کے محرکات پر بھی بات کی۔
ان کا کہنا تھا کہ ’میرے خیال میں ہم دیکھ سکتے ہیں کہ وہاں شدید مصائب کا سامنا ہے اور جب سے یہ تنازع شروع ہوا غزہ میں روزانہ مزید جانیں ضائع ہو رہی ہیں۔ اور اب مجھے یہ دیکھ کر بہت خوشی ہوئی کہ پوڈیم سے صدر جنگ بندی کی وکالت کر رہے تھے اور کہہ رہے تھے کہ اب اس جنگ کے خاتمے کا وقت آ گیا ہے۔‘
ہالا رہیریٹ نے کہا کہ یقینا یہ خوفناک ہے کہ اس میں اتنا وقت لگ رہا ہے۔ ’اور مجھے اس بات پر بھی بہت تشویش ہے کہ ہم نے اپنے امریکی ہتھیاروں کی اسرائیل کو فراہمی نہیں روکی۔‘
ان کے مطابق جنگ بندی کا یہ مطالبہ ’حقیقت کی نشاندہی نہیں کرتا ہے کہ ہم اب بھی امریکی اور بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی کر رہے ہیں کیونکہ اسرائیل کو مہلک گولہ بارود، جارحانہ ہتھیاروں کی فراہمی جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اور اسے بھی رکنے کی ضرورت ہے۔‘
رہیریٹ نے کہا کہ ’اور ظاہر ہے کہ اس میں دو ریاستی حل اور فلسطینیوں کے حق خود ارادیت کو شامل کرنے کی ضرورت ہے۔ لیکن فوری طور پر، ہمیں جنگ بندی کی ضرورت ہے۔ ہمیں غزہ والوں کو سانس لینے اور جینے کے قابل ہونے کا ماحول فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔‘
ہالا رہیریٹ اس معاملے پر امریکی انتظامیہ کی سبکدوش ہونے والی نہ تو پہلی اور نہ ہی آخری اہلکار ہیں۔
تقریباً ایک ماہ قبل، محکمہ خارجہ کے انسانی حقوق کے بیورو کی اینیل شیلین نے اپنے استعفیٰ کا اعلان کیا تھا، اور محکمہ خارجہ کے اہلکار جوش پال نے اکتوبر میں استعفیٰ دے دیا تھا۔

شیئر: