پاکستان میں احتجاج کے باعث کنٹینرز حاصل کرنے والے پریشان، ’بھاری ڈیمریج کون ادا کرے گا؟‘
پاکستان میں احتجاج کے باعث کنٹینرز حاصل کرنے والے پریشان، ’بھاری ڈیمریج کون ادا کرے گا؟‘
منگل 26 نومبر 2024 15:56
زین علی -اردو نیوز، کراچی
گڈز کیرئیر ایسوسی ایشن کے صدر رانا اسلم نے کہا کہ ’ٹرانسپورٹرز اس وقت انتہائی مشکل صورتحال سے گزر رہے ہیں‘ (فوٹو: اے ایف پی)
پاکستان کے شہر کراچی سے تعلق رکھنے والے کلیئرنگ ایجنٹ عثمان غنی گزشتہ 20 برس سے بندرگاہ پر امپورٹ اور ایکسپورٹ کے کنٹینرز کلیئر کرنے کا کام کررہے ہیں، حالیہ سیاسی حالات نے عثمان کی پیشہ ورانہ زندگی کو بےحد متاثر کیا ہے۔
عثمان نہ صرف کنٹینرز کی کلیئرنگ بلکہ ٹرانسپورٹ اور لوڈنگ و آف لوڈنگ کے انتظامات بھی دیکھتے ہیں لیکن ملک بھر میں جاری احتجاجی مظاہروں کی وجہ سے ان کا کام تعطل کا شکار ہو گیا ہے۔
عثمان غنی کے مطابق ملک کے مختلف شہروں سے سامان کے ساتھ یا خالی کنٹینرز واپس کراچی پہنچتے ہیں لیکن کئی اہم شاہراہوں کی بندش کی وجہ سے ان کی چھ گاڑیاں مختلف مقامات پر پھنس گئی ہیں۔
’ان میں سے چار گاڑیوں پر خالی کنٹینرز لدے ہوئے ہیں جنہیں جلد از جلد کراچی پورٹ پہنچانا ضروری ہے، ورنہ ہر گزرتے دن کے ساتھ انہیں بھاری ڈیمریج ( مقررہ وقت پر کنٹینر واپس نہ کرنے کی ڈیوٹی) کا سامنا کرنا پڑے گا۔‘
عثمان نے بتایا کہ’ 40 فٹ کے ایک کنٹینر پر یومیہ ڈیمریج تقریباً 33 سے 35 ہزار روپے کے درمیان ہوتا ہے، موجودہ معاشی صورتحال میں کم منافع پر بھیجی گئی یہ گاڑیاں اگر وقت پر نہیں پہنچ سکی تو جیب سے پیسے بھرنے پڑیں گے۔‘
واضح رہے کہ پاکستان میں پی ٹی آئی کے حالیہ احتجاجی مظاہروں کی وجہ سے کئی بڑے شہروں کے راستے مکمل طور پر بند ہیں۔ اس کے علاوہ اسلام آباد جانے والی سڑکوں پر بھی کنٹینرز لگا کر رکاوٹیں کھڑی کی گئی ہیں۔
ان حالات میں ٹرانسپورٹ کا نظام بری طرح متاثر ہوا ہے، جس سے نہ صرف کلیئرنگ ایجنٹس بلکہ دیگر متعلقہ صنعتوں کو بھی پریشانی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
کراچی کے علاقے سائیٹ ایریا میں کپڑا بنانے کی فیکٹری میں منیجر کی حیثیت سے کام کرنے والے نجیب اللہ خان نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’پچھلے ایک ہفتے سے ٹرانسپورٹرز نے گاڑیاں دینے اور کام کرنے سے معذرت کر لی ہے۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ’سیزن کے حساب سے تیار کیے گئے آرڈرز کو وقت پر پارٹیوں تک پہنچانا مشکل لگ رہا ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’دسمبر کے دوسرے ہفتے میں انہیں کپڑوں کی شپمنٹ روانہ کرنی ہے۔ آرڈر کا کچھ مال کراچی اور کچھ مال فیصل آباد میں تیار ہوا ہے، دونوں شہروں میں تیار ہونے والے کپڑوں کو کراچی میں پیکنگ کے بعد جنوبی امریکہ کے لیے روانہ کرنا ہے۔‘
نجیب اللہ کے مطابق ’اگر وقت پر فیصل آباد سے مال کراچی نہ پہنچا تو شمنٹ بھیجنا کسی صورت ممکن نہیں ہو سکے گا۔ جہاں بھاری نقصان کا سامنا ہو گا وہیں کمپنی کی ساکھ بھی متاثر ہو گی۔‘
انہوں نے کہا کہ عالمی سطح پر پہلے ہی پاکستان کو ماضی کے مقابلے میں مشکل ترین حالات میں کام کرنا پڑ رہا ہے۔ ’ایک جانب مہنگی پیدواری لاگت کا سامنا ہے تو دوسری جانب بہتر ریٹ نہ ملنا کا مسئلہ ایکسپورٹرز کو پریشان کررہا ہے۔‘
گڈز کیرئیر ایسوسی ایشن کے صدر رانا اسلم نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ٹرانسپورٹرز اس وقت انتہائی مشکل صورتحال سے گزر رہے ہیں، ایک جانب کروڑوں روپے کی گاڑیاں داؤ پر لگی ہیں تو دوسری جانب ان پر لدا سامان خطرے میں ہے۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ماضی میں یہ طے ہو گیا تھا کہ لوڈ ڈگاڑی نہیں پکڑی جائے گی لیکن انتظامیہ نے اس بار لوڈڈ گاڑیاں پکڑ کر بھی راستے بند کر دیے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ ’جہاں گاڑیوں اور سامان کی پریشانی سر پر ہے، وہیں یہ خوف بھی سر پر کھڑا ہے کہ اس پر لوڈڈ کنٹینرز کا ڈیمریج کیسے ادا کیا جائے گا، پچھلے سات دن سے گاڑیاں پھنسی ہیں اور نہیں معلوم کے کب تک پھنسی رہیں گی۔ ان گاڑیوں کے پہنچنے میں جتنی تاخیر ہوگی اتنا ہی نقصان بڑھتا جائے گا۔‘
رانا اسلم کے مطابق اس وقت ملک میں امپورٹ ایکسپورٹ کا نظام بھی متاثر ہو رہا ہے۔ ٹرانسپورٹ ہی نہیں ہو گی تو پورٹ سے کتنے کنٹینر باہر جائیں گے؟ ریل کا آپشن ہے لیکن وہ ملک کی ضرورت کو پورا کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا ہے۔
کراچی پورٹ ٹرسٹ (کے پی ٹی) کے ترجمان کے مطابق ’پورٹ پر کنٹینرز کی لوڈنگ اور آف لوڈنگ ان کی ذمہ داری ہے لیکن ان کا واپس آنا یا ڈیمریج کا معاملہ محکمہ کسٹمز کے دائرۂ کار میں آتا ہے۔ اس صورت حال میں کلیئرنگ ایجنٹس اور کاروباری افراد کو اپنے مسائل کا حل نکالنے کے لیے دیگر ذرائع تلاش کرنے پڑ رہے ہیں۔‘
ترجمان محکمہ کسٹمز سے اس بارے میں موقف جاننے کے لیے رابطہ کیا گیا لیکن ان کی جانب سے جواب نہیں دیا گیا۔